لائف سٹائلکالم

جوائے لینڈ کا قضیہ اور مذہبی حمیت

عبد المعید زبیر

ہر آنے والے دن کے ساتھ عالم اسلام کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نظریاتی ہوں یا اعتقادی، اخلاقی ہوں یا تہذیبی محاذ، ہر جگہ پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے۔ جہاں ایک طرف لوگ دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہو کر، اس کے دامن سے لپٹ رہے ہیں تو وہیں بہت سے نام کے مسلمان بھی مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر دین اسلام کی من پسند تشریحات کر رہے ہیں تاکہ دین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔

چند دنوں سے ایک فلم کو لے کر پاکستان میں طوفان برپا ہے۔ فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ اسے اس اعتبار سے پیش کر رہے ہیں کہ یہ پاکستانی فلم ہمیں آسکر ایوارڈ دلا سکتی ہے۔ اس کی کہانی اور ایڈیٹنگ پاکستان کی اپنے لوگوں کی ہے۔ یہ دوسری انڈسٹریز کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر جیسے ہی اس کا شور ہوا تو مذہبی طبقے نے اس کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی، اسے شریعت اور آئین پاکستان کے منافی قرار دیا، اس فلم کو ہماری تہذیب اور اخلاقیات پر حملہ تصور کیا۔ اس احتجاج کی بنا پر مرکزی سنسر بورڈ نے بھی اس فلم کے خلاف رائے دی اور حکومت نے فوراً پابندی کا حکم صادر کر دیا۔ اگرچہ بعد میں ایک کمیٹی بنی جس نے اس پابندی کو ختم کروا دیا۔ حالانکہ اس میں شامل لوگ شاید اس کی باریکیوں سے واقف ہی نہیں۔

ایسی فلم جو پنجابی زبان میں ہے، مگر اس کے پروڈیوسروں کی اکثریت انگریزی زبان جاننے والوں کی ہے۔ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے پروڈیوسر ایک دو نہیں بلکہ نو دس لوگ ہیں، گویا اس "نیک” کام کے لیے باہر سے تجربہ کار لوگ ہائر کرنے پڑے۔ یہ فلم ایل جی بی ٹی پلس نظریے پر بنائی گئی ہے۔ گویا ہم جنس پرستی اس کا اصل محور ہے۔ بہ الفاظ دیگر ایسے لوگ جو اپنی جنس سے مطمئن نہیں، وہ مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنے جیسوں لوگوں سے محبت کر کے مخالف جنس اختیار کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ یہ فلم ایسے ٹرانسجینڈرز کی لو لائف یا سیکشوئل لائف پر مبنی ہے۔

این جی اوز کی طرف سے یہ کوئی پہلا قدم نہیں اٹھایا گیا بلکہ تقریباً عرصہ پانچ سال سے سوائے مذہبی جماعتوں کے تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں عالمی ایجنڈے پر متفقہ طور پاکستان میں ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر ٹرانسجینڈر ایکٹ پیش کیا، ووٹ دیا اور نافذ کروایا جس کے نتیجے میں صرف تین سال کے اندر اندر تیس ہزار سے زائد لوگوں نے اپنی جنس تبدیل کروائی، اور وہ بھی صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کی خاطر۔ اس کی تفصیلات ایک الگ موضوع ہے، جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا مگر یہاں قابل افسوس بات یہ ہے کہ جب مذہبی طبقہ اس بل کے خلاف متحد ہوا، مل کے کھڑا ہوا، قوم کو بیدار کیا، عدالت کے ذریعے اس کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ہماری تہذیب پر دوسری طرف سے نقب لگانے کی کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس حوالے سے کامیاب ہو جائیں۔

فلم ایک دن یا مہینے میں تو نہیں بنی بلکہ اس کے لیے سوچا گیا، لکھا گیا، بندے منتخب کیے گئے، ایک ٹیم بنائی گئی، تب کہیں مہینوں اور سالوں کی محنت کے بعد جا کر یہ فلم تیار ہوئی۔ ذرا سوچیے کہ کس طرح پاکستان میں یہ منظم طریقے سے، ایک خاص فکر کو ترویج دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مگر اس ساری صورت حال میں سب سے افسوس ناک رویہ ہماری قوم کا ہے جو اس المیہ کو سمجھنے کی بجائے اس پر بھونڈی دلیلیں دے رہی ہے۔ ایک انتہائی سینئر اور کئی دیگر لکھاریوں کی تحریریں نظر سے گزریں تو دل و دماغ پھٹنے لگ جائیں، ان کے شعور پر ماتم کو جی چاہے۔ جن کے دلائل کا خلاصہ یہ تھا کہ اس فلم کی مخالفت تو ایسے کی جا رہی ہے جیسے پہلے تو یہاں سارے نیک اور متقی لوگ بس رہے ہوں، کیا اگر یہاں کسی کی متنازعہ ویڈیو لیک ہو جائے تو سارے اس کو دیکھنے کے لیے بےتاب نہیں ہوتے؟ کیا لنکس نہیں مانگے جاتے، کیا پورن ویڈیوز نہیں دیکھی جاتیں؟ کیا یہاں ایک ہیجڑے پر ایک ایک رات میں لاکھوں نہیں لٹائے جاتے؟ کیا یہاں ہیجڑوں کی محبت میں لوگ مارے مارے نہیں پھرتے۔ کیا یہاں بچوں کے ساتھ زیادتیاں نہیں ہوتیں؟ کیا یہاں طوائف خانے اور اڈے آباد نہیں؟ اگر یہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو کیا اب یہاں ہم جنس پرستی یا اخلاقی اور تہذیبی گراوٹ کی بات کرنا باقی رہ جاتا ہے۔ جہاں اتنا کچھ ہو رہا ہو، وہاں صرف ایک فلم سے کون سی قیامت آ جائے گی وغیرہ وغیرہ۔

ان جیسے دیگر تمام اعتراضات اپنی جگہ مگر یہاں میرا یہ سوال ہے کہ یہاں کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے، چوری اور ڈاکہ زنی کا بازار گرم رہتا ہے، گن پوائنٹ پر عزتیں لوٹی جاتی ہیں، وڈیرہ نظام لوگوں کو غلام بنائے رکھتا ہے، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا ہے، اور شدت پسندی پائی جاتی ہے تو کیا اب اس پر یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہاں تو پہلے سے سب کچھ عروج پر ہو رہا ہے، ہر جابر اور ظالم اپنے تئیں دوسروں کے حقوق سلب کر رہا ہے، ہر پارٹی پاکستان کے خزانے پر اپنے اپنے ہاتھ کی کاریگری دکھا رہی ہے تو بس اب اگر کوئی نیا شخص کر لیتا ہے تو کون سا فرق پڑتا ہے، ایک بندے کے کسی شریف زادی کی عزت تار تار کرنے سے کیا فرق پڑنا ہے، کسی ایک کے لوٹنے یا قتل کرنے سے کون سی قیامت ٹوٹ جانی ہے۔ وہاں تو ایسی کوئی دلیل نہیں دی جاتی۔ وہاں تو شور مچایا جاتا ہے، احتجاج کیا جاتا ہے، بائیکاٹ کیا جاتا ہے، روڈ بلاک کیے جاتے ہیں، جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔ یہ دوہرا معیار کیوں؟

یہاں جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو پوری قوم ایک آواز کے ساتھ باہر نکلتی ہے اور اس پر احتجاج کرتی ہے، مجرموں کو پکڑنے کے لیے حکومت پر زور دیا جاتا ہے تاکہ ہماری جان مال، عزت و آبرو محفوظ رہے۔

اصول یہ ہے کہ پہلے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں، نقصان ہو جانے کے بعد شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس وقت کام ہو چکا ہوتا ہے۔ بعد میں صرف تھانوں اور کچہریوں کے سالہاسال کے چکر اور ذلت بچتی ہے۔ اسی طرح یہاں جو کام پہلے گناہ سمجھ کر یا چھپ کر کیے جاتے ہیں، اگر ان کی تشہیر شروع کر دی جائے، انہیں قانونی تحفظ فراہم کیا جانے لگے، تو اندازہ کیجیے یہاں کیا صورت حال ہو گی۔ یہاں کس حد تک فسادات جنم لیں گے۔ یہاں کس حد تک فحاشی و عریانی عام ہو جائے گی۔ شاید اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ یورپ بطور مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں لوگ ان چیزوں سے تنگ آ چکے ہیں۔

ایسی چیزوں کی روک تھام صرف شریعت مطہرہ کا حصہ ہی نہیں بلکہ آئین پاکستان بھی ریاست کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ دین کی اشاعت کا اہتمام اور دین سے متضاد چیزوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم ایسی چیزوں کو ناپسند کریں، ان کے خلاف آواز اٹھائیں اور ان کے سدباب کے لیے موثر اقدامات کریں۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button