ارشد شریف قتل: سازشی تھیوریوں کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
پاکستان کے معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر سازشی تھیوریاں عروج پر ہیں، سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ٹویٹس، پوسٹ اور دیگر تبصروں میں ان کی موت کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے جوڑا جا رہا ہے تاہم کینین پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ سینئر صحافی ارشد کو غلط فہمی کی بنیاد پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں سوشل میڈیا پر سازشی تھیوریوں کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے تناظر میں جنم لینے والی سازشی تھیوریز کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔
ڈاکٹر عرفان اشرف نے بتایا کہ ارشد شریف کی موت ایک حقیقت اور قابل مذمت عمل ہے جس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا لیکن حالیہ دنوں میں مرحوم ایسے حالات میں سامنے آئے جنہوں نے ایک سیاسی جماعت کی مکمل حمایت شروع کر رکھی تھی جہاں پر وہ ان کے جلسوں اور دھرنوں میں بھی شریک ہوئے تھے جس کی وجہ سے پہلے سازشی نظریے نے یہیں سے جنم لیا۔
ڈاکٹر عرفان کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں واضح طور پر صحافت اور اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہمیشہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کی ہے اور جب اس حوالے سے معلومات عوام تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے روکا جاتا ہے جس سے سازشی تھیوری جنم لیتی ہے۔
ان کے مطابق تیسری وجہ یہ ہے کہ جب کوئی صحافی صحافت کی بجائے ایکٹیوازم شروع کرے اور عوام کے مسائل کی بجائے پاور پالیٹکس کیلئے صحافت جیسے مقدس پیشے کو استعمال کرنا شروع کرے تو اس سے نہ صرف صحافی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے بلکہ صحافت سے جڑے معاملات کے متعلق سازشی نظریات پھیل جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان کے مطابق ان سب چیزوں کی وجہ سے صحافت کو ایک بڑا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جس کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ پریس کلبز اور یونینز کی سطح پر اقدامات اُٹھائے جائیں اور یہ طے کریں کہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر صحافت کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کیسے ایک صحافی کام کر سکتا ہے۔
دوسری جانب کینیا پولیس کی جانب سے سینئر پاکستانی صحافی ارشد شریف کو غلط فہمی کی بنیاد پر فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق ارشد شریف کو کینیا کی پولیس نے نیروبی کے قریب سر میں گولی مار کر اس وقت قتل کیا گیا جب ان کے ڈرائیور کی جانب سے مبینہ طور پر چیک پوائنٹ پر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس کے مطابق ہمیں ارشد شریف جیسی ہی ایک کار میں بچے کو یرغمال بنانے کی اطلاع ملی تھی جس پر روڈ بلاک کر کے گاڑیوں کی چیکنگ کی جا رہی تھی کہ اس دوران پاکستانی صحافی کے ڈرائیور نے کار روکنے کے بجائے قوانین کی خلاف ورزی کی جس پر ان کا پیچھا کیا گیا اور پھر یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔
کینیا پولیس ہیڈکوارٹر کا کہنا ہے کہ انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوور سائٹ اتھارٹی معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔