لائف سٹائلکالم

پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ کون؟

عبد المعید زبیر

ترقی ہر دور میں ہر شخص کی اولین ترجیح رہی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے کل کو آج سے بہتر بنانے اور دیکھنے کی تڑپ میں رہا ہے۔ آج کی تکلیف میں کل کا سکون، آج کی مشقت میں کل کی راحت تلاش کرتا ہے۔ آج کی محنت میں کل کی کامیابی کا خواب سجائے بیٹھا ہے۔ اسی تڑپ میں یہ انسان ایسے ایسے کام کر گیا کہ عقل دنگ رہ جائے۔ پانی کو اپنے تابع کرنا ہو یا پتھروں کو تراشنا ہو، آسمان کی بلندیاں ہوں یا زمین کی گہرائیاں، ہر جگہ اپنی کاریگری کے جوہر چھوڑ رہا ہے۔

ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ انہی تقاضوں پر نئی نئی ترجیحات مرتب ہوتی ہیں۔ پھر انہی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ہر آنے والا منصوبہ کل کے منصوبوں سے بہتر اور زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ ہر دور کے تقاضوں اور بدلتی ترجیحات کے مطابق نئے پروجیکٹس متعارف کروانے، ان کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو لوگوں میں اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے چوبیس اکتوبر کو ترقیاتی منصوبوں سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس حوالے سے دنیا کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے، اس کے مطابق ترقیاتی کاموں کی فکر کی جائے، ترقی کے راستے میں درپیش مسائل پر بحث کی جائے، ان کے حل کے لیے راستے نکالے جائیں۔

اس وقت چائنہ، امریکہ، روس، جاپان جیسے ممالک ترقی کے عروج پر ہیں حتی کہ انڈیا اور ملیشیاء جیسے ملک بھی اپنی پراڈکٹس کے ذریعے انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستان کے حالات کوئی قابل فخر نہیں۔ تعلیمی، معاشی، اقتصادی، صنعتی اور زرعی میدان میں ترقیاتی صورت حال کو دیکھا جائے تو انتہائی افسوس ناک ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی چیز اگر تعلیمی اداروں کی صورت حال کو دیکھا جائے تو شاید سب سے کم بجٹ انہی کے لیے مختص ہوتا ہے جس میں تعلیمی اداروں کے اخراجات، اساتذہ کی تنخواہیں، اور مستقبل کا لائحہ عمل سب طے کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں کم بجٹ اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے تعلیمی اور تربیتی معیار بہت کم ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ پرائیویٹ اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم تو اچھی ہے مگر فیسیں ہر شخص ادا نہیں کر سکتا۔

آئے روز تعلیم مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ غریب کا بچہ تعلیم سے محروم ہو رہا ہے۔ اور غربت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بے روزگاری کی شرح اڑتالیس فیصد ہے۔ جب اتنے لوگ بےروز گار ہیں تو بچوں کو اتنی مہنگی تعلیم کون دلائے گا۔ جب تعلیم کی یہ صورت حال ہو گی تو سوچیے کہ ترقی کی شرح کی ہو گی؟ لہذا یہاں تعلیم پر صرف امیر لوگوں کے بچوں کا ہی حق بچتا ہے (اور انہیں تعلیم کی کوئی خاص ضرورت نہیں)۔ بلکہ پاکستان تو صرف انہیں امیر لوگوں کے لیے ہے، جو دن بدن مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں۔ غریبوں کا تو ہر جگہ استحصال ہوتا ہی نظر آئے گا۔

اسی طرح اگر معاشی ترقی کی طرف نظر دوڑائیں تو سینہ کوبی کو جی چاہتا ہے جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا سیاسی عدم استحکام ہے۔ یہاں چیزیں مہنگی ہونے پر اپوزیشن خوش ہوتی ہے کہ چلو کوئی مخالفت کرنے کا موقع ہاتھ میں آیا۔ اگر کوئی ریلیف ملے تو انہیں بےانتہا تکلیف ہوتی ہے کہ عوام کو کیوں ریلیف ملا کیونکہ اس طرح حکومتی جماعت کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا موقع کا ملتا ہے۔ اپوزیشن کو خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں عوام کا جھکاؤ حکومتی پارٹی کی طرف نہ ہو جائے۔ گویا یہاں سب کو اقتدار عزیز ہے۔

کوئی پارٹی ملک سے وفادار نہیں ہے۔ جس پارٹی کو اقتدار ملے، اس کا سب سے پہلا کام سابقہ حکومت کے ترقیاتی کاموں کو روکنا ہوتا ہے اور عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ یہ کام تو قوم کو بہت مہنگا پڑ رہا تھا، اس کی تو ضرورت ہی نہیں تھی لہذا اس کی جگہ فلاں منصوبہ زیادہ بہتر ہو گا۔ لہذا اس نئے منصوبے کے منظور ہونے سے شروع ہونے تک اور پھر پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل نئی حکومت وارد ہو چکی ہوتی ہے اور ہھر وہ بھی وہی اقدامات نئے سرے سے دہراتی ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ "سی پیک” جس سے پوری قوم کی امیدیں وابستہ تھیں، جسے بڑی تیزی سے شروع کیا گیا اور کافی حد تک مکمل بھی ہو چکا تھا مگر اب ہماری سیاستوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اللہ اللہ کر کے اگر یہاں کوئی منصوبہ پورا ہو جائے تو افتتاح بعد میں ہوتا ہے، کرپشن کے قصے پہلے شروع ہو جاتے ہیں کیوں کہ اس ایک منصوبے سے کئی لوگوں نے پیسے کمانے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سال پورا ہونے سے قبل کبھی پل ٹوٹ جاتے ہیں، کبھی بسیں ناکارہ ہو جاتی ہیں اور کبھی تو چند سال کا منصوبہ سالہاسال چلایا جاتا ہے تاکہ اس کے نام پر لوگوں سے ووٹ لیے جائیں۔ بس الیکشن آتے ہی کام تیز اور الیکشن کے بعد سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کراچی کا گرین لائن کا منصوبہ، لاہور کا اورنج ٹرین منصوبہ، کے پی کا بی آر ٹی منصوبہ، بلین ٹری منصوبہ اور وفاق کے تحت پچاس ہزار گھروں کا منصوبہ وغیرہ۔ کراچی کا ایک سالہ منصوبہ تو بالآخر چھ سال میں مکمل ہو گیا، اورنج ٹرین اور بی آر ٹی منصوبہ اپنی کرپشن کی داستانوں کے ساتھ مکمل ہوئے مگر بلین ٹری منصوبہ اور پچاس ہزار گھر کہیں نظر نہیں آ رہے۔ بلکہ ان گھروں کی قرعہ اندازی کے لیے درخواست جمع کروانے کی مد میں کروڑوں اربوں بھی قوم سے جمع کر لیے گئے۔ ڈیم فنڈ کی مد میں اربوں اکٹھے کیے گئے۔ وہ کہاں لگے، کسی کو کوئی علم نہیں۔

پاکستان میں حالیہ سیلابی صورت حال نے ہماری معیشت کو شدید متاثر کیا مگر اس مد میں ملنے والی امداد ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہے لیکن خدمت میں مصروف صرف مذہبی تنظیمیں ہی نظر آتی ہیں۔ اس امداد کا حجم آئی ایم ایف سے ملنے والی امداد کے قریب قریب ہے مگر وہ کہاں صرف ہو گی کسی کو علم نہیں۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں سرکاری افسران کی تنخواہوں، الاؤنس اور پروٹوکول وغیرہ میں کبھی کمی نہیں دیکھیں گے بلکہ پہلے سے اضافہ کر دیا گیا اور دوسری طرف تازہ تازہ سونامی کا شکار ہوئی عوام پر مہنگائی اور بدحالی کا طوفان مسلط کر دیا گیا۔ جہاں ایسی صورتحال ہو تو وہاں ترقی کا حال کیا ہو گا؟

اس کے باوجود یہاں مسلسل ایک طبقہ موجود ہے جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب کو سمجھتا ہے۔ جیسے پی آئی اے، ریلوے، موٹر ویز، سٹیل ملز اور سٹیٹ بینک وغیرہ انہی مولویوں نے گروی رکھوائے ہوں۔ یاد رکھیے! نہ تو مذہب ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی مذہب پسند۔ ترقی میں رکاوٹ ہماری اپنی نااہلیاں اور عیاشیاں ہیں۔ اگر مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا تو جدید سائنسی، فنی، طبی، معاشی، سماجی، ادبی، فلکیاتی، حیاتیاتی اور خلائی تحقیقات مذہب پسندوں کی مرہون منت نہ ہوتیں۔ اگر مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا تو ابن الہیثم، ابن رشد، ابن سینا، جابر حیان، یعقوب الکندی اور زکریا الرازی جیسے لوگ پیدا نہ ہوتے جہنوں نے جدید سائنسی دنیا میں انقلاب برپا کیا، جنہوں نے دنیا کو نئی سوچ متعارف کروائی۔

اسلام بس ایسی ترقی کا مخالف ہے جو ہمیں عیاش، دنیا پرست بنا دے، اللہ تعالیٰ سے غافل کر کے دنیا کا بندہ بنا دے، آخرت کی فکر ختم کر کے دنیا کی فکر پیدا کر دے۔ اگر ہماری ترقیاں ہمیں اللہ تعالیٰ اور فکر آخرت سے غافل نہیں کریں تو یاد رکھیں وہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی بہترین سامان ہے۔

Moed
عبد المعید زبیر جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل اسکالر ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل کے لئے لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button