سوات: وین ڈرائیور کی ہلاکت دہشت گردی نہیں غیرت کے نام پر قتل تھا۔ معظم جاہ انصاری
آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ رواں مہینے سکول وین پر حملہ اور اس کے نتیجے میں ڈرائیور کی ہلاکت دہشت گردی کا واقعہ نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل تھا۔
سوات کے موجودہ حالات پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی پی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ دس اکتوبر کو لوئر دیر اور گلی باغ میں سکول وین پر حملے ہوئے، دو مختلف مقامات پر سکول وین کو ٹارگٹ کیا گیا، عام تاثر یہ ملا کہ یہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہے (حالانکہ) گلی باغ وین حملہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا، وین ڈرائیور حسین علی کو ان کے بہنوئی نے ساتھیوں سے مل کر غیرت کے نام پر قتل کیا، قتل میں ملوث تین افراد گرفتار جبکہ ایک دبئی فرار ہو گیا ہے۔
معظم جاہ انصاری نے بتایا کہ ڈرائیور کے قاتل اور اس کے ساتھی احتجاج اور جنازے میں بھی شریک رہے، قتل میں استعمال ہونے والے موٹرسائیکل اور آلہ قتل کو برآمد کر لیا گیا ہے، سوات کے عوام کو جو تکلیف پہنچی اس کا ذمہ دار یہی خاندان ہے۔
آئی جی پی کے مطابق علاقے سے طالبان واپس چلے گئے ہیں اور اب خوف کے سائے چھٹ گئے ہیں، تمام بالائی پہاڑوں پر پولیس پوسٹیں بنائی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام پاکستانیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ برفباری دیکھنے کے لئے آئیں، علاقے میں سنو فیسٹیول کا انعقاد بھی ہو گا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کی دس تاریخ کو سوات کی تحصیل چارباغ کے علاقے گلی باغ میں سکول وین پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈرائیور موقع پر جاں بحق جبکہ ایک بچہ شدید زخمی ہوا تھا جس کے بعد علاقے میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
وقوعہ کے بعد ورثا اور علاقے کے لوگوں نے جاں بحق ہونے والے ڈرائیور کا جسد خاکی خوازخیلہ سڑک پر رکھ کر شدید احتجاج کیا اور یہ واضح کر دیا کہ قاتلوں کی گرفتاری تک وہ لاش کو نہیں دفنائیں گے۔
بعدازاں سوات انتظامیہ اور دھرنا مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد دو روز سے جاری دھرنا ختم کر کے مقتول کی نمازِ جنازہ ادا کر دی گئی، انتظامیہ کی جانب سے ملزمان کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ مقتول کو شہدا پیکج میں شامل کیا گیا۔
تاہم علاقہ میں بدامنی کے ظہور پر اس سے قبل ہی احتجاج کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس واقعہ پر سوات بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے، سب سے برا مظاہرہ مینگورہ نشتر چوک میں سوات اولسی پاسون کے جھنڈے تلے کیاا گیا جس میں سینیٹر مشتاق احمد خان، ایمل ولی خان، سردار بابک اور منظور پشتین نے بھی شرکت کی تھی۔
سوات میں آج بھی کسی نہ کسی مقام پر احتجاج کے سلسلے کو دوام حاصل ہے، اہل سوات نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے سامنے سرنڈر نہیں کریں گے، اور ریاست اپنی رٹ اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا ہوں گی۔