جرائم

ٹی ٹی پی کی فائر بندی، خیبرپختونخوا میں سکیورٹی فورسز پرحملوں میں کون ملوث ہے؟

 

خالدہ نیاز

خیبرپختونخوا میں ایک ہفتے کے دوران 6 سکیورٹی اہلکاروں کو قتل جبکہ 25 کو زخمی کردیا گیا ہے۔ مختلف اخبارات اور رپورٹس کے مطابق صوبے میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، رواں ہفتے پولیس اور سکیورٹی فورسز پر کئی ایک حملے ہوچکے ہیں جس میں 6 اہلکار جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں جبکہ 25 زخمی ہیں۔ 4 جولائی ڈیرہ اسماعیل خان میں دو ٹریفک پولیس اہلکاروں کو قتل کیا گیا، اس کے بعد 5 جولائی کو ٹانک میں دو پولیس اہلکار قتل ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہی ہاتھ ہے۔

5 جولائی کوہی شمالی وزیرستان کے میرعلی سب ڈویژن میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں پندرہ اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔  ڈی پی او فرحان خان کے مطابق نوں میرانشاہ مین روڈ پر واقع خدی مارکیٹ کے قریب شہید ایس پی طاہر خان داوڑ چوک کے نزدیک سیکورٹی فورسز پر موٹر سائیکل خودکش حملہ ہوا۔

ڈی پی او کے مطابق خودکش حملہ آور نے موٹر سائیکل سیکورٹی فورسز کی گاڑی کے ساتھ ٹکرائی جس کے نتیجے میں اہلکار زخمی ہوئے۔

مردان میں پولیس چوکی پر دھماکہ

6 جولائی کو شمالی وزیرستان میں پاک افغان بارڈر پر افغانستان سے حملہ ہوا تھا جس میں ایک اہلکار جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوا۔ حملوں کا یہ سلسلہ ابھی تک نہ رک سکا اور گزشتہ روز مردان میں پولیس چوکی پربھی دھماکہ ہوا تھا جس میں ہیڈ کانسٹیبل جاں بحق جبکہ 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عرفان اللہ خان نے ٹی این این این کو بتایا تھا کہ پولیس چوکی چمتارپر نامعلوم دہشت گردوں نے جمعرات کے روز چوکی کے مین گیٹ کے ساتھ خودساختہ بم نصب کیا تھا جو پونے گیارہ بجے زروددار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا جس کے نتیجے میں پولیس چوکی میں موجود حوالدار مقصود جاں بحق جبکہ چوکی کے انچارج اے ایس آئی سہیل خان اور دو پولیس کانسٹیبل کریم اور فیاض زخمی ہو گئے۔

پولیس ترجمان اے ایس آئی فرمان علی کے مطابق پولیس چوکی چمتار کے انچارج اے ایس ائی سہیل خان کی نگرانی میں پولیس گاڑی واپس پولیس چوکی آ رہی تھی اور جب چوکی کے گیٹ سے پولیس گاڑی داخل ہوئی اس وقت ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیچے میں گیٹ پر موجود ہیڈ کانسٹیبل مقصود جاں بحق جبکہ دھماکے کی زد میں آنے والی گاڑی میں موجود پولیس چوکی انچارج سہیل خان اور اس کے ساتھ پولیس ڈارئیور فیاض اور سپاہی کریم زخمی ہو گئے۔

 

خیبرتیراہ میں پولیو ٹیم پر فائرنگ

گزشتہ روز ہی ضلع خیبر تھانہ تیراہ کی حدود، علاقہ متھرے اکاخیل میں نامعلوم افراد کی جانب سے پولیو ٹیم پر فائرنگ، ہوئی تھی جس سے چار پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔

گزشتہ شب نوشہرہ میں دو مقامات پر دوران گشت پولیس موبائل اور رائڈر پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اے ایس آئی سمیت 2 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جنہیں شدید زخمی حالت میں قاضی میڈیکل ہسپتال منتقل کر دیا گیا واقعہ کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے دونوں مقامات پر دہشتگردوں کیخلاف سرچ آپریشن شروع کر دیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تھانہ کلاں کی حدود خویشگی میں دوران گشت پولیس موبائل وین پر فائرنگ سے ڈرائیور زخمی ہوگیا، فائرنگ کا دوسرا واقعہ تھانہ مصری بانڈہ کی حدود میں پیش آیا۔ مصری بانڈہ میں نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے اے ایس آئی طاہر خان زخمی ہوگیا۔

پولیس اور باقی سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ کسی بھی حملے میں ان کا ہاتھ نہیں ہے۔

 

ان حملوں کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے

دہشت گردی کی موجود لہر اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے حوالے سے سابق صوبائی سیکرٹری داخلہ بریگیڈیئر(ر) ریٹائرڈ محمود شاہ نے کہا کہ "ان حملوں کے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے لیکن وہ چالاکی سے کام لے رہے ہیں وہ باقی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے جبکہ سیز فائر صرف شمالی وزیرستان میں قاری گل رحمان اور فوج کے مابین ہے باقی علاقوں میں نہیں ہے” انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع کے ملکان بھی فاٹا کا انضمام نہیں چاہتے تھے کیونکہ انضمام سے پہلے انکو بہت زیادہ فوائد ملتے تھے جوکہ اب نہیں ہے طالبان انکو بھی ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے محمود شاہ نے کہا کہ اسکی پاکستانی کی آئین اور قانون میں گنجائش نہیں ہے اور اس کے کوئی مثبت اثرات نہیں نکلیں گے۔ پاکستان کسی دوسرے ملک کے ساتھ تو مزاکرات کرسکتا ہے لیکن جب ملک کے اندر کوئی تنظیم اٹھے اور وہ آئین کو ماننے سے انکار کرے تو انکے ساتھ مزاکرات نہیں کئے جاسکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صرف ٹی ٹی پی نہیں ہے ان کے علاوہ بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو بعد میں مذاکرات کا مطالبہ کرسکتی ہیں لہذا اس کے نتائج مثبت نہیں نکل سکتے۔

 

ان حملوں کے پیچھے داعش کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے

دوسری جانب کنفلیکٹ زون میں رپورٹنگ کرنے والے پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر سید عرفان اشرف نے اس سوال کے جواب میں کہ ان حملوں میں کون ملوث ہوسکتا ہے کہا کہ اس میں تین گروپ ملوث ہوسکتے ہیں کیونکہ طالبان چھوٹی عید سے سیز فائر کا اعلان کرچکے ہیں اور انکی حکومت کے ساتھ مزاکرات کے کئی ایک ادوار بھی ہوچکے ہیں۔ ایک تو ان حملوں کے پیچھے داعش ہوسکتا ہے کیونکہ داعش اس سے قبل افغانستان میں بھی حملے کرچکا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے افغان طالبان کے ساتھ روابط ہے جبکہ داعش ان کا مخالف گروپ ہے، اس کے علاوہ گل بہادر گروپ ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں ہے اور اس وقت انکے زیادہ تر لوگ افغانستان میں ہے جبکہ دو تین ماہ قبل پاکستان نے افغانستان میں جیٹ جہازوں کے ذریعے بمباری کی تھی اور اس میں زیادہ تر لوگ گل بہادر گروپ کے مارے گئے تھے تو ممکن ہے کہ ان حملوں کے پیچھے گل بہادر گروپ کا ہاتھ ہو لیکن یہاں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے گل بہادر گروپ قبائلی اضلاع میں حملے کرتا ہے باقی علاقوں میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے ٹی ٹی پی کے اپنے گروپس اس میں ملوث ہو کیونکہ ٹی ٹی پی کے مزاکرات تو جاری ہے لیکن انہوں نے نہ تو ان حملوں کی تردید کی اور نہ انکی ذمہ داری قبول کی۔ 2008 میں سوات میں فضل اللہ جس نے بعد میں ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی تو وہ اس بات سے انکار کرتا تھا کہ پولیس پر حملوں میں وہ نہیں ملوث لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان حملوں کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا تو ابھی بھی امکان ہے کہ یہ ٹی ٹی پی ہی کررہے ہوں لیکن وہ اس کو مانتے نہیں کیونکہ انکی حکومت کے ساتھ مزاکرات جاری ہے اور اس سے اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 

طالبان قبائلی اضلاع میں داخل ہونا چاہتے ہیں

طالبان نے ایک پریس ریلیز میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ وہ آئین اور فاٹا انضمام کو نہیں مانتےکیونکہ انضمام سے یہ علاقے حکومتی دائرہ اختیار میں آگئے اور جہاد کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ محمود شاہ کے مطابق طالبان کا مطالبہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں انضمام کا فیصلہ واپس لیا جائے تاکہ انکو دوبارہ وہاں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع مل سکے لیکن اگر انکی یہ بات مان لی جاتی ہے تو اس کے بہت منفی اثرات سامنے آئیں گے ایک بار پھر دہشت گردی بڑھ جائے گی اور اب تک دہشت گردی کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان سب پہ پانی پھر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے طالبان کو بھی یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے دیں کیونکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے خلاف انکی سرزمین استعمال ہورہی ہے، انہوں نے کہا کہ یہاں وزیرستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سراج الدین حقانی کے مشورے پر ہورہا ہے۔

محمود شاہ نے حالیہ حملوں اور واقعات کے حوالے سے کہا کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کو دوبارہ شروع کرنے کی جانب ایک قدم ہے لہذا وقت پر اس کا خاتمہ کرنا چاہیے کیونکہ اس کے برے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں کیونکہ مزاکرات کی اہمیت ختم ہوسکتی ہے لہذا پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی جان کی حفاظت کو یقینی بنائے اور اس بات کو ٹی ٹی پی کے ساتھ اٹھائے کہ وہ مزاکرات کے ساتھ ان حملوں کی روک تھام کو بھی ممکن بنائے۔

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button