مردان: 17 سالہ لڑکی کا سگے بھائی پر جنسی زیادتی کا الزام
خالدہ نیاز
مردان میں ایک 17 سالہ لڑکی نے اپنے سگے بھائی پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کو ڈیڑھ سال تک بدفعلی کا نشانہ بناتا رہا۔ لڑکی نے صدر تھانے میں ایف آئی آر درج کراتے وقت انکشاف کیا کہ ملزم نے دو روز قبل بھی ماں کو زبردستی گھر سے نکال دیا اور اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایف آئی آر میں لڑکی نے بتایا کہ ملزم مختلف اوقات میں اس کے ساتھ زیادتی کرتا رہا اور وہ شرم و حیا کی وجہ سے خاموش رہی۔ ایف آئی آر کے اندراج کے وقت لڑکی کی والدہ بھی اس کے ہمراہ موجود تھی اور اس نے بھی اس بات کی تائید کی ملزم بہن کو مسلسل زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔
اس حوالے سے تھانہ صدر کے ہیڈ کانسٹیبل ندیم نے ٹی این این کو بتایا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ملزم کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ متاثرہ لڑکی کو ایم ایم سی مردان ہسپتال بھیجا گیا جہاں اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا جس میں ابتدائی معلومات کے مطابق لڑکی کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے تاہم مکمل رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔
دوسری جانب ماہر نفسیات ڈاکٹر عرشی ارباب نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس طرح کے کیسز بڑھ گئے ہیں، اس کو انسسٹ (incest) کہا جاتا ہے جس میں خون کے رشتوں یعنی ماں، بہن، بھتیجی اور بھانجی وغیرہ سے غلط تعلقات استوار کئے جاتے ہیں یا ان کو ڈرا دھمکا کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔
خون کے رشتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا ذہنی بیماری ہے
عرشی ارباب نے کہا کہ حلال رشتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا ایک دماغی بیماری ہوتی ہے تاہم اس کی دیگر مخلتف وجوہات بھی ہو سکتی ہیں جن میں سے پورن ویڈیوز دیکھنا، ہارمونز کا اِم بیلنس ہونا، اور شادیوں کا تاخیر سے ہونا بھی شامل ہے کیونکہ آج کل شادی کرنا بہت مشکل ہے، اتنی مہنگائی کے دور میں ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ شادی کرے یا بعض خاندانوں میں شادی بڑی عمر میں کروائی جاتی ہے تو اس سے بھی ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔
سوات میں بھائی نے بہن کے ساتھ تین بار جنسی زیادتی کی
یاد رہے اس سے قبل سوات میں بھی اس نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا جہاں ایک لڑکی نے اپنے بھائی پر اس کا ریپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اگست 2021 میں سامنے آنے والے اس واقعے میں متاثرہ لڑکی نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کا بھائی اس کو مدین سیر کے لئے لے کر گیا جہاں اس نے اس کو تین بار زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کی والدہ اور بہن اس کی شادی نہیں کروا رہے اور اس کو شادی کی ضرورت تھی تو اس نے بہن کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اسی سال سوات میں ایک لڑکی نے والد پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا تھا۔
عرشی ارباب کے مطابق پورن ویڈیو دیکھنے سے نوجوانوں میں سیکس کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس کے بعد وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ان کی ماں ہے، بہن ہے خالہ ہے یا کوئی اور، بس وہ اپنی جنسی تسکین پوری کرنے کے لیے کسی کو بھی ہوس کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔
گھر کی خواتین مردوں کا آسان ہدف ہوتی ہیں
عرشی ارباب نے یہ بھی بتایا کہ اکثر مرد گھر کی خواتین کو اس لیے بھی جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ اگر وہ گھر سے باہر کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ جلد ایکسپوز ہو جائیں گے لیکن گھر کی خواتین کم ہی اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور اگر اٹھاتی بھی ہیں تو ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ماہر نفسیات نے کہا کہ ان کی ایک جاننے والی ہیلتھ ورکر کے پاس ایک کم عمر کی لڑکی آئی تھی جس کا ڈیلیوری کیس تھا اور کم عمری کی وجہ سے چانسز تھے کہ اس میں اس بچی کی جان بھی چلی جائے، ہیلتھ ورکر نے اس کی ماں کو کہا کہ اس بچی کو ہسپتال لے کر جائیں لیکن وہ اس کے لیے راضی نہ ہوئی، پھر اس ہیلتھ ورکر نے بچی کے ساتھ آئی خالہ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس کو اپنے بھائی نے جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد حاملہ کروایا ہے اور اس کی والدہ اپنے بیٹے کو بچانا چاہتی ہے چاہے اس میں اس کی بیٹی کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اکثر پچاس سال سے زائد عمر والے مرد بھی آج کل اس جانب راغب ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی سیکس کی ضرورت اپنی بیوی سے پوری نہیں ہوتی تو پھر وہ گھر میں موجود اپنی بیٹیوں، نواسیوں اور بھتیجیوں پر بری نظر رکھتے ہیں اور پھر ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ یہ خواتین ان کا آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں اور ہر وقت گھر میں موجود ہوتی ہیں بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے۔
لوگ اس کو بیماری ہی نہیں سمجھتے
ماہر نفسیات نے کہا کہ اس کا تدارک ممکن ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لڑکوں اور مردوں کا ذہنی علاج کروایا جائے مگر بدقسمتی سے ہمارے اس کو لوگ بیماری ہی نہیں سمجھتے بس لوگ کہتے ہیں یہ خراب یا آوارہ ہے، وقت پر نکاح ہونا چاہیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا، گھر میں جوان بہن بھائیوں کے کمرے الگ ہونے چاہئیں، لڑکیوں کو یہ شعور دینا چاہیے کہ اگر اس کو گھر کے مرد کچھ ایسا ویسا کہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ ڈائریکٹ سب کے سامنے اس حوالے سے بات کریں اور یہ بات نہ چھپائیں، ماں کو نہ بتائیں کیونکہ ماں ان کو چپ کرا دیتی ہے، جبکہ لڑکوں کی کمپنی کو بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح کے لوگوں میں اٹھ بیٹھ رہے ہیں۔
لاء اینڈ جسٹس کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چار برسوں کے دوران پاکستان میں 14 ہزار سے زائد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے لیکن سزائیں صرف تین فیصد کیسز میں ہی سنائی گئیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 خواتین اور آٹھ بچے زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 2020 تک یومیہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی۔
علاوہ ازیں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سال 2020 میں تین ہزار کے قریب بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد کیا گیا اور اوسظاً پاکستان میں روزانہ آٹھ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے گفتگو میں عرشی ارباب نے وضاحت کی کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوتے تھے اب لوگوں میں کسی حد تک اویئرنس آئی ہے تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں بھی اس حوالے سے سلیبس کے ذریعے بتانا چاہیے کہ وہ کس طرح سیلف ڈیفنس کر سکتی ہیں، نہ صرف گھر کے باہر بلکہ گھر کے اندر بھی۔ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک خاتون آتی تھی جس کا شوہر اپنی بیٹی پر غلط نظر رکھتا تھا اور اس خاتون کے ساتھ ہمیشہ یہ وسوسہ ہوتا تھا کہ جب اس کی بیٹی گھر آئے گی تو کیا کرے گی کیونکہ گھر میں والد بھی موجود ہو گا، تو لڑکیوں کے ساتھ گھر میں کسی قابل اعتبار بندے کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔
اینٹی ریپ ایکٹ 2021 میں کیا ہے؟
پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ میں ریپ کی سزا موت ہے، اس کے علاوہ کم از کم دس اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید کی سزا ہے جبکہ جس نے ریپ کیا ہے اس شخص پر جرمانہ بھی لگایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس حوالے سے ایک اور اینٹی ریپ ایکٹ 2021 بھی آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ خواتین کا میڈیکل بھی مفت کروایا جائے گا، ان کو پروٹیکشن بھی دی جائے گی کیونکہ جب ایک لڑکی اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو پھر جان جانے کا بھی ڈر ہوتا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اکثر کیسز میں لڑکی والوں پر دباو ڈالا جاتا ہے راضی نامے کے لیے اور یوں متاثرہ کاندان والے راضی نامہ کر بھی لیتے ہیں۔
ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک لڑکی جس کا ریپ کیا گیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی تھی، پھر وہ دارالامان میں تھی کورٹ نے اس کو ایبورشن کی بھی اجازت نہیں دی تو اس نے خاندانی دباؤ اور اپنی عزت کی خاطر اس شخص سے ہی نکاح کر لیا جس نے اس کا ریپ کیا تھا۔
ریپ کیس میں تفتیش میں بھی تفصیلی رپورٹ ہونی چاہئے
مردان واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مہوش نے کہا کہ اس ملزم کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے تاکہ یہ دوسروں کے لیے مثال بن جائے اور آئندہ کوئی ایسا نہ کر سکے۔
مہوش محب کاکاخیل کے مطابق موجود ایکٹ میں متاثرہ خواتین کو بہت تحفظ دیا گیا ہے، ان کو پوری سکیورٹی میں عدالت لایا جائے گا جبکہ ان کو علیحدہ کمرے میں بٹھایا جائے گا اور ویڈیو لنک کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا کیونکہ اکثر اوقات ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ کیس واپس لے لیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تفتیش میں بھی تفصیلی رپورٹ ہونی چاہئے کیونکہ اکثر اوقات تفتیش ناقص ہوتی ہے جس میں ملزم کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ نئے ایکٹ کے تحت اینٹی ریپ کرائسز سیلز بنیں گے جہاں ان خواتین کو سہولیات دی جائیں گی، ریپ کیسز میں اب راضی نامہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں ریاست پارٹی ہوتی ہے اور وہ خود اس کیس کو دیکھتی ہے۔
کاکاخیل نے مزید بتایا کہ مردان والے واقعے کے حوالے سے مکمل تفتیش ہونی چاہئے جبکہ جینڈر پروٹیکشن یونٹ کو بھی اس حوالے سے تفتیش کرنی چاہیے تاکہ لڑکی کو انصاف اور ملزم کو سزا مل سکے۔