جرائم

”5 سال بعد بھی دھماکے کا وہ سبز شعلہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے”

عبدالستار

کچہری کے مین دروازے سے مغرب کی جانب تیس قدم کے فاصلے پر واقع محمد طارق خان ایڈوکیٹ کے چیمبر پر آج بھی دھماکے میں استعمال ہونے والے بال بیئرنگ کے نشانات موجود ہیں، دو ستمبر دو ہزار سولہ کو حملہ آور ہونے والے خودکش بمبار کے بدن کے ٹکڑے ان کے چیمبر میں جا گرے تھے، کہتے ہیں چیمبر پر لگے یہ نشانات ایسا ہے جسے ان کے دل پر لگے ہوں، ‘پانچ سال گزرنے کے بعد بھی مجھے دھماکے کے وقت اٹھنے والا سبز قسم کا شعلہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔”

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران گزشتہ چودہ سال سے مردان کچہری میں وکالت کے پیشے سے وابستہ محمد طارق خان نے بتایا کہ 2 ستمبر 2016 کا منظر ان کے ذہن میں نقش ہے، ”اب بھی اگر کوئی ذکر کرتا ہے تو میں وہ منظر بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ منظر یاد آنے پر میری کیفیت ہی بدل جاتی ہے، اس دن کچہری کے مین گیٹ کے ساتھ برآمدہ میں اپنی سیٹ پر موجود تھا کہ اچانک ہینڈگرنیڈ کا دھماکہ ہوا اور پھر فائرنگ شروع ہوئی اور چند سیکنڈ بعد ایک اور زوردار دھماکہ ہوا اور دھماکے کے سبز سے شعلے کے ساتھ اندھیرا چھا گیا اور خودکش بمبار کے بدن کے ٹکڑے میری سیٹ کے پیچھے آن گرے۔”

انہوں نے کہا کہ اس وقت مجھے عجیب قسم کا خوف محسوس ہوا اور اے پی ایس پشاور کا واقعہ ذہن میں آ گیا کہ اب دہشت گرد کچہری میں داخل ہو کر اے پی ایس کے بچوں کی طرح وکلاء کو بھی ماریں گے لیکن دھماکے کی گونج کانوں میں ختم ہوتے ہی دوسرے وکلاء ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے زخمی اور جاں بحق ساتھیوں کو اٹھایا اور ان کی مدد شروع کی۔

پانچ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی طارق خان ایڈوکیٹ کی سیٹ کے ساتھ دیواروں پر گولیوں اور دھماکے میں استعمال ہونے والے بال بیرنگ کے نشانات اب بھی موجود تھے جبکہ برآمدے سے باہر دوسرے وکلاء کے چیمبروں کے دیوار پر بھی گولیوں اور بال بیئرنگ کے نشانات نقش ہیں۔

ایڈوکیٹ طارق خان نے کہا کہ دھماکے کی آواز کے ساتھ کچہری میں لوگ نزدیک ضلعی سیکریٹریٹ کی دیواریں پھلانگ گئے جس کے دوران کئی لوگ زخمی بھی ہوئے لیکن اب بھی میرے ذہن میں یہ بھی سوالات اٹھے ہیں کہ آخر معصوم لوگوں کو کوئی نشانہ بناتا ہے؟

تیس سال سے مردان کچہری میں پریکٹس کرنے والے بخاور سید ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس دن مجھے نئی زندگی ملی کہ میں چند سیکنڈ کے فرق سے کچہری کے میں دروازے سے دوسری جانب ہوا کہ اچانک فائرنگ اور دھماکہ ہوا جس میں میرا ایک چچازاد سیداکبر ایڈوکییٹ گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے شہید ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس خودکش دھماکے نے ہمارے ذہنوں پر ایسا اثر کیا ہے کہ ہم اب کچہری کے مین دروازے پر آتے ہیں تو تیزرفتاری کے ساتھ گیٹ سے گزرتے ہیں اور وہی منظر ذہن میں آ جاتا ہے،  اس وقت وکلاء کئی کئی ماہ کچہری آنے سے گریز کرتے تھے اور ذہنی مسائل کا شکار ہو گئے تھے۔

بحتاور سید نے کہا کہ مجھے رات کو صحیح نیند بھی نہیں آتی تھی اور کئی ماہ تک یہ مسئلہ جاری رہا اور سوچتا رہا کہ وکلاء کو اس وجہ سے دہشت گرد نشانہ بناتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور معاشرے میں ان کا شمار باشعور لوگوں میں ہوتا ہے۔

مردان کچہری میں وکالت کے پیشے سے وابستہ نوجوان احمد خان نے بتایا کہ دھماکے کے بعد اپنے زخمی اور جاں بحق ساتھیوں کی مدد کرنے کے بعد مجھے نفسیاتی مسائل نے گھیر لیا تھا جس کی وجہ سے دھماکے کی گونج ذہن میں رہتی تھی اور طرح طرح کی سوچیں آتی تھیں اور رات کو نیند بھی متاثر ہوئی تھی جس کے بعد مجھے سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا پڑا اور کئی ماہ تک سائیکوتھراپی اور میڈیسن لیتا رہا اور مکمل علاج کرنے کے بعد میں نے کچہری میں معمول کی پریکٹس شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ مردان کچہری خودکش دھماکے میں ہمارے بہت اچھے دوست شہید ہوئے جن میں الیاس ثانی ایدوکیٹ، ارشد خان ایڈوکیٹ جن کا چیمبر بالکل گیٹ کے پاس تھا، وہ زیادہ متاثر ہو گئے تھے۔

اظہر رحیم ایڈوکیٹ بھی اس دھماکے میں زخمی ہوئے تھے اور اس کے ساتھ اس کا اٹینڈنٹ بھی زخمی ہوا تھا، انہوں نے کہا کہ اب شکر ہے دہشت گردی کی وہ لہر تھم گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارا بھی وہ خوف ختم ہو گیا ہے، پہلے تو کچہری دھماکے کے بعد ذہن میں ہر وقت ایک خوف رہتا تھا اور روز ہم دھماکوں کی خبریں سنتے تھے۔

سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر اعزاز جمال نے دھماکے یا کسی اور حادثہ کے انسانی ذہن پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے بتایا کہ ایسی صورت میں اکثر لوگوں کی نیند چلی جاتی ہے، ذہن میں مختلف قسم کے خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ناامیدی کی سوچ شروع کر دیتے ہیں، ایسی صورتحال میں چاہیے کہ وہ کسی ماہرنفسیات کے پاس جا کر ان سے مشورہ کریں اور اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ دشہت گردی کی حالیہ لہر نے لوگوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے اور جب بھی انسان کے سامنے دھماکہ یا کوئی دوسرا بڑا حادثہ ہوتا ہے جس میں انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد اس کے اثرات انسان کے ذہن پر کئی دنوں تک رہتے ہیں اور اگر وہ اثرات ایک ماہ سے زیادہ وقت لیں تو ماہرنفسیات کے ساتھ رجوع کرنا چاہیے، دہشت گردی کی وجہ سے دھماکوں میں انسانی زندگیاں ضائع ہوئیں، اس کے بعد کورونا وباء میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں جس کی وجہ سے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے ہیں۔

2 ستمبر 2016، جمعہ کے دن ہونے والے خودکش حملے میں چار وکلاء اور دو پولیس اپلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ دھماکے میں نہ صرف وکلاء بلکہ کچری میں کام کرنے والے دوسرے لوگ جن میں ہوٹل میں کام کرنے والے مزدور، اسٹامپ فروش اور عرض نویس شامل ہیں، وہ بھی متاثر ہوئے تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button