نشاء عارف
کل کی ہی تو بات ہے جب محلے کے سب لڑکے لڑکیاں اک ساتھ کھیلتے تھے، آنکھ مچولی، گلی ڈنڈا، کرکٹ، گیند گٹی وغیرہ بغیر یہ سوچے کہ لڑکوں کے کھیل کون سے ہیں اور لڑکیوں کے بس کھیلتے شام ہو جاتی ہے۔
صبح سویرے سکول کے لیے امی تیار کرتیں اور سب محلے کے بچے ایک ساتھ سکول کے لیے فوج کی شکل میں روانہ ہو جاتے، لڑکے اپنے سکول جبکہ لڑکیاں اپنے سکول کے گیٹ میں داخل ہو جاتے۔ جنسی ہراسانی یا زیادتی کیا چیز ہے اس سے دور تک نا کوئی واسطہ تھا نا پہچان تھی۔
وقت گزرتا گیا، ترقی کے ساتھ کھیل کود میں بھی جدت آ گئی، نئی ٹیکنالوجی کے دور میں لوگ موبائل، ٹیبلٹ کے ساتھ کھیلنے لگے۔ لگتا ہے کسی تیزدھار چھری کو بچوں کے ہاتھ میں دیا ہے جس سے کسی بھی وقت وہ خود کو نقصان پہنچا سکتے ہیں وہی مثال موبائل کا بھی ہے، جس نے زیادہ تر نوجوان نسل کو بگاڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے۔ ساس بہو کی لڑائی، گھر سے بھاگ کر شادی، بڑوں کی نافرمانی اور سب سے خطرناک قسم چھوٹے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا زیادتی کا نشانہ بنانے جیسے واقعات روزمرہ بنیادوں پر پیش آ رہے ہیں۔
حال ہی میں پشاور شہر کے ایک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں ایک دل خراش واقعہ پیش آیا ہے جس میں جماعت ہفتم کی طالبہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہ بھی کسی اور نے نہیں بلکہ اپنے ہی سکول کے نائب قاصد کے ہاتھوں کئی بار ہوس کا نشانہ بن چکی ہے جو کہ شادی شدہ اور 4 یا 5 بچوں کا باپ ہے۔
لیکن گھر والوں اور سکول انتظامیہ کو تب پتہ چلا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اساتذہ کے مطابق چھٹی کے بعد کلاسز کو خالی کیا جاتا ہے لیکن سکول کے گیٹ سے وہ کسی بھی طالبہ کو باہر نہیں نکال سکتے کیونکہ کچھ طالبات کو لینے بھائی، والد آتا ہے اس لئے طالبات کچھ وقت کے لیے سکول کے گیٹ پر ہی انتظار کرتی ہیں جبکہ دوسری جانب بچی کا کہنا ہے کہ اس کو سکول میں ہی نائب قاصد نے جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا ہے، اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار بنایا ہے۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وہ معصوم بچی حاملہ بھی ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ، یہ تو پولیس انوسٹی گیشن کے بعد پتہ چلے گا تاہم فی الحال محکمہ تعلیم کی جانب سے نائب قاصد کو سسپنڈ (معطل) کر دیا گیا ہے اور مزید معلومات کے لیے انکوائری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔
پتہ نہیں کتنی ہی بچیاں اور بچے روزانہ کی بنیاد پر جنسی زیادتی کا نشانہ بن رہے ہیں؟ سکول یا مدرسہ تو وہ جگہ ہے جنہیں لوگ نا صرف کافی محفوظ سمجتے ہیں بلکہ یہاں بچوں کی ذہنی و روحانی تربیت بھی کی جاتی تھی اور کچھ سال پہلے والدین اس لیے بچوں کو مدرسہ بجھواتے تاکہ عاقل و قابل بن سکیں لیکن افسوس کچھ لوگوں کی وجہ سے مقدس مقامات پر سے بھی لوگوں کا اعتبار ختم ہو رہا ہے۔
نسرین بی بی کی بھی دو بچیاں اس سکول میں پڑھ رہی ہیں، وہ نا صرف ڈر گئی ہیں بلکہ ان کو وہم ہو گیا ہے، عجیب طرح کے خیالات آتے ہیں، خود ہی اب بچیوں کو سکول چھوڑنے جاتی ہیں اور آتی ہیں لیکن دل مطمئن نہیں ہے، ”سکول تو وہ جگہ ہے جہاں تو والدین لازماً اپنے بچوں کو بھیجیں گے، اس کا تو کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے، حکومت اس کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے۔”