خیبر پختونخواکورونا وائرس

اس بار کرسمس میں وہ مزہ کہاں ہے؟

علی افضل افضال،رانی عندلیب
دنیا بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی آج عیسائی برادری اپنا سب سے بڑا تہوار کرسمس منا رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر کی طرح یہاں پر امسال اس تہوار میں وہی رنگینیاں اور خوشیاں نظر نہیں آرہی جس کی وجہ عالمی وبا کورونا ہے۔
پشاور میں مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ اس سال تہوار کورونا وبا کی نذر ہو گیا. نہ تو صحیح طریقے سے شاپنگ کی گئ اور نہ ہی چرچ میں پہلی کی طرح اپنی عبادات ادا کر سکتے ہیں.
پشاور کوہاٹی گیٹ کی سنیتا کہتی ہیں کہ سارا سال کرسمس کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ لیکن اس سال کرسمس کی تیاریاں بہت پھیکی تھی۔ پہلے ہم لوگ اس تہوار کی تیاریاں ایک مہینے پہلے سے شروع کرتے تھے. گھر چرچ اور اپنی گلی محلوں کو پہلے سے سجا لیتے تھے لیکن اس دفعہ یہ سب کچھ بہت محدود ہے کیونکہ انتظامیہ نے زیادہ میل ملاپ اور اجتماع سے منع کیا ہوا ہے۔
سنیتا کا کہنا ہیں کہ کرسمس کے موقع پر وہ لوگ پہلے چرچ میں سارا دن گزارتے تھے، عبادات کرتے تھے مگر اس دفعہ انتظامیہ کے ہدایات کے مطابق وہ سب مختصر عبادت کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جائیں گے۔
پشاور انتظامیہ نے کرسمس کے موقع پر کورونا ایس او پیز عملی کرانے کے لئے عیسائی برادری کے مذہبی رہنماوؤں کی مدد لی ہے۔ پشاور کے سینٹ جون کھیتڈرل چرچ کے پادری جوزف جانز کہتے ہیں کہ کورونا وبا کی وجہ سے سارے گرجا گھروں میں ایس او پیز پر سختی سے عمل درامد کیا جارہا ہے، سماجی فاصلوں کا بھی خیال رکھتے ہوئے ماسک کا استعمال لازمی ہیں. انھوں نے مزید کہا کہ کورونا وبا جان لیوا بیماری ہیں تو اس سے بچاو کے لیے مسیحی برادری اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انھو ں نے کورونا وبا کی پہلی لہر کے حوالے سے بتایا کہ اس دوران انہوں نو عبادت کے لئے تین مختلف اوقات مقرر کئے تھے تا کہ ایک ساتھ زیادہ لوگ موجود نہ ہو۔ اس دوران عبادت خانوں میں ماسک اور سینٹائیزر کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہیں کہ ان کے چرچ کافی کھلی ہے اور اس میں کافی جگہ ہیں اور یہ تمام سماجی فاصلے سے انتظامات کر کے کرسمس منارہے ہیں۔
مسیحی مذہب کے ماننے والی پشاور کی کرن بھی سنیتا کی طرح کرسمس کے موقع پر پرانے کی طرح میل ملاپ اور انجوائے منٹ کے دوسرے زرایعوں پر پابندی سے کافی افسردہ ہیں اور کہتی ہیں کہ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کی طرح مسیحی برادری کا یہ تہوار اور عبادات بھی کورونا کی نذر ہو گئے.اس سے پہلے کرسمس میں وہ لوگ مذہبی عبادات کے بعد چرچ میں ہی ایک دوسرے کو کرسمس کی مبارک باد دیتے تھے لیکن اس دفعہ کورونا کی وجہ سے ان سب پر پابندی ہے.

کرن نے مزید کہا کہ کرسچن کمیونیٹی کی جتنی بھی تقریبات ہیں سب کے سب چرچ میں ہوتے ہیں،چاہیے وہ شادی کی تقریبات ہو یا میت کی رسومات ہو، کورونا وبا کی وجہ سے ان کی تمام رسومات متاثر ہو چکے ہیں. کرسمس میں ہر سال جو سپشل میلا لگتا تھا اس بار وہ بھی نہیں لگا۔
پشاور اوقاف کے ایڈمن ارشد کمال کا کہنا ہے کہ کرسمس کی تہوار کے حوالےسے ضلع انتظامیہ نے پہلے سے سخت اقدامات کیے ہیں. پشاور کے تمام چرچ میں سماجی فاصلوں کا خیال رکھنے اور ایس او پیز پر سختی سے عمل در امد کیا جائے گا۔
دوسرے عبادات پر اثرات
کورونا وبا نے نہ صرف عید اور کرسمس کی طرح مذہبی تہواروں کو متاثر کیا بلکہ اس سے ہر مذہب کی روزمرہ عبادات پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔
پشاور میں ایک گوردوارے کا منظر
جمعے کے شام کے وقت ہے، پشاور سکھ برادری کے خواتین و حضرات محلہ جوگن شاہ کے گوردوارے میں اپنی عبادت کیلئے جمع ہیں جہاں پر دعائیاں تقریب ہو رہی ہے۔ گوردوارے میں اندر جانے سے پہلے لوگوں نے کورونا وبا کو مدنظر رکھ کر ہاتھوں کو صابن سے دھو رہے ہیں، ماسک کے بغیر کسی کو اندر جانے نہیں دیا جا رہا۔ اندر بھی چند رضاکار صرف اس ڈیوٹی پر مامور ہیں کہ عبادت کے لئے آنے والوں کے درمیان فاصلے کو یقینی بنائے۔


گوردوارے میں موجود پشاور سے تعلق رکھنے والا سکھ کمیونٹی کے حقوق کیلئے ایک فعال رُکن بابا گروپال سنگھ نے ٹی این این ریڈٰیو کو بتایا کہ کوویڈ نے پوری دُنیا کی طرح سکھ برادری کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لیا اور وہ اپنی سرگرمیاں اور عبادات برقرار رکھنا ان کے لئے کافی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
اُنکے مطابق کورونا وبا کے پہلے لہر میں حکومتی احکامات کے مطابق انکا گوردوارہ تقریباً دو ماہ کیلئے بند رہا جبکہ دوسری لہر میں عبادات ایس او پیز کو مدنظر رکھ کر محدود و محفوظ انداز میں ادا کئے جا رہے ہیں۔
گروپال کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو خدشہ تھا کہ ان کے مذہبی پیشوا بابا گرو نانک کی جنم دن کے تقریبات کو منسوخ کردیا جائے گا لیکن وہ حکومت پاکستان کے بے حد مشکور ہیں جس نے ان لوگوں کو اپنے تقاریب منانے کیلئے اجازت دیکر پوری دُنیا سے زائرین کو موقع فراہم کیا۔
انہوں نے مگر بوجھل دل سے کہا کہ پچھلے سال بابا گرو نانک کی جنم دن کے موقع پر کرتارپور پچیس ہزار سے زائد زائرین جمع ہوگئے تھے لیکن امسال ایک ہزار سے بھی کم تھے۔
خیبرپختونخواہ کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والا ہرمیت سنگھ کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے وہ نہ صرف بابا گرونانک کی جنم دن تقریبات میں شرکت نہ کرسکی بلکہ حسن ابدال کے خالصہ سجنا کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جنم دن کے تقریبات بھی ان سمیت بہت سے سکھوں سے رہ گئے۔
ہرمیت نے کہا کہ ہر سال جنوری کے بیس تاریخ کو سکھ مذہب کے پیروکار گرو کا جنم دن مناتے ہیں مگر ملک بھر کورونا کیسز میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے تو انہیں ڈر ہے کہ ان کی وہ تقریب بھی متاثر ہو۔
‘ہمارے دو اہم تقریبات ہوتے ہیں جن میں جنوری میں گرو کا جنم دن منانا اور اپریل میں بیساکی میلہ مگر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جس طرح کرونا وبا خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے تو سرگرمیاں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی ممکن نظر نہیں آ رہی ہے’ ہرمیت نے اندیشہ ظاہر کیا۔
پشاور کے گوردوارے میں عبادت سےفارغ ہونے کے موقع پر رجنا نامی خاتون نے کہا کہ کورونا نے نہ صرف انکی مذہبی رسومات متاثر کئے بلکہ انکے غمی و خوشی کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
‘کچھ عرصہ پہلے ان کے دو بھتیجے ایک حادثہ میں فوت ہوگئے تھے جن کی فوتگی کی رسومات بھی اپنی روایات اور مذہب کے مطابق ادا نہیں کئے گئے ہیں جس پر انکو بہت افسوس ہے’ رجنا نے بتایا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button