اسلام پور، پاکستان کا واحد علاقہ جہاں کوئی بیروزگار نہیں، اب کس حال میں ہے؟
محمد طیب، رفیع اللہ خان، شاہ نواز آفریدی
سوات کا اسلام پور ملک کا واحد علاقہ جس کے تقریباً سو فيصد باسی برسر روزگار ہیں اور اس علاقے کی ہاتھ سے بنی روایتی شالز اور دیگر دستکاری مصنوعات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہیں، یہاں عرصہ قدیم سے مردانہ و زنانہ گرم شالز، واسکٹ، ”پکول” (چترالی ٹوپی) اور گرم کپڑے تیار کئے جاتے ہیں اور یہی ان کا واحد ذریعہ معاش ہے۔
ليکن کرونا وباء نے اسلام پور کی چھوٹے صنعت کو بھی نہیں بخشا ہے اور اسلام پور کے لوگ وباء کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئے کیونکہ کرونا لاک ڈاون کے دوران اسلام پور میں تیار ہونے والی مصنوعات کی پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ممالک کو ترسیل مکمل طور پر معطل تھی کیونکہ ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے اسلام پور کی شالیں، چادر اور دوسری مصنوعات کے مارکیٹ تک پہنچانے میں بہت دشواریاں تھیں۔
آج کل سردی کا موسم عرج پر ہے اور یہی موسم اسلام پور کے لوگوں کیلئے سیزن کی مانند ہوتا ہے کیونکہ اسلام پور میں تیار ہونے والی گرم چادریں، شال، سواتی پکول اور گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات سردی کے موسم میں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔
اسلام پور کے گاوں سے تعلق رکھنے والی چالیس سالہ خاتون بیگم اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی کھڈی پر تیار کردہ اسلام پوری شال پر کشیدہ کاری میں مصروف ہیں، بیگم اس کے ساتھ ساتھ گھر کی دیگر خواتین اور بچوں کو بھی کام سے متعلق ہدایات دے رہی ہیں۔
بیگم بتاتی ہیں کہ ہمارے گھر کے مرد روایتی کھڈی پر کپڑا تیار کرتے ہیں اور علاقے کی خواتین اس عمل میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں کیونکہ کپڑوں پر کشیدہ کاری اور رنگ سازی کا سارا کام خواتین ہی کرتی ہیں۔
بیگم آگے بتاتی ہیں کرونا وباء نے ان کے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ اچانک لاک ڈاون لگ جانے کی وجہ سے ان کا روزگار مکمل طور پر رک گیا تھا، نہ نیا مال مارکیٹ کو پہنچ سکتا تھا اور نہ نیا مال بنانے کیلئے خام مال اسلام پور آتا تھا۔
پینتیس ہزار آبادی والے اسلام پور گاوں میں پندرہ ہزار کے قریب کھڈیاں (کارخانے) موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس گاوں میں کوئی شخص بے روزگار نہیں ہے تاہم دس فیصد لوگ باہر ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
بارہ کارخانوں کے مالک رسول خان نے بتایا کہ کورونا وباء سے بھی ہمارا کاروبار کافی متاثر ہوا ہے کیونکہ مارکیٹ میں ان کا مال نہیں پہنچ پا رہا تھا اور اسی وجہ سے چار کھڈیاں بند کی ہیں۔
سردی کا موسم اپنے جوبن پر ہے اور گرم چادروں کے کاروبار میں تیزی آئی ہے۔ عمر اسحاق نامی دکاندار نے بتایا کہ کورونا وباء کی پہلی لہر میں ان کا کاروبار نہ ہونے کے برابر رہ چکا تھا کیونکہ نا تو سوات میں سیاح آتے تھے اور نا ہی ملک کے دوسرے حصوں تک مال پہنچا سکتے تھے۔
پہلی لہر میں جو ہوا سو ہوا اب اگر حکومت دوبارہ کاروبار بند کرنے کا اعلان کرے تو اسے کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ والی سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صیب نے 1923 میں سوات کے مختلف علاقوں کوکاری، جامبیل، گلی باغ، سیدوشریف اور حتیٰ کہ بونیر سے بھی اس صنعت سے وابستہ قبیلے کو اسلام پور میں آباد کیا۔ مقامی لوگوں کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے بھیڑ کی اون سے گرم چادریں، گرم کپڑے، شالز، واسکٹ اور روایتی پکول تیار کرنے کے لئے چھوٹے کارخانے لگائے گئے تھے جو نسل در نسل اب بھی جاری ہیں۔
اسلام پور کی طرح چارسدہ میں کھدر اور مقامی چپل بنانے کا کاروبار بھی کرونا وبا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ چارسدہ اتمانزئی کا رہائیشی عبد المالک، جو پیشے کے لحاظ سے کاریگر ہے اور کھدر کا کپڑا تیار کرتا ہے، کا کہنا ہے کہ کورونا کی پہلی لہر میں لاک ڈاون کی وجہ سے وہ متاثر ہوئے تھے اور اب دوسری لہر میں دوبارہ لاک ڈاون لگنے کا خدشہ ہے، اگر لاک ڈاون لگ گیا تو ان کا کام مکمل طور پر بند ہو جائے گا اور دو وقت کی روٹی کا ملنا مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پہلی لہر کے دوران لاک ڈاون میں مزدوری نہ ہونے کی وجہ سے دکانداروں اور مالکان کا مقروض بن گیا تھا، گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ گیا تھا اور اب دوبارہ لاک ڈاون کی باتیں ہو رہی ہیں، ”اگر دوبارہ لاک ڈاون لگ گیا تو دو چار پانچ سو روپے مزدوری اور دیہاڑی کرنے والے مزدور مزید مالی مشکلات کے شکار ہو جائیں گے۔”
مورخین کا کہنا ہے کہ کھدر کے کپڑے بنانے اور چارسدہ چپل بنانے کی صنعت اور روزگار پاکستان کی آزادی سے بھی قبل کا ہے اور یہ ایک اس علاقے کا ایک پرانا روزگار اور صنعت ہے جو اب چارسدہ کی پہچان بن گئی ہے۔https://www.youtube.com/watch?v=rYHTQjTcygI
چارسدہ اتمانزئی میں کھدر کی مشینوں کے مالک عبد الرحمان کا کہنا ہے کہ کورونا کی پہلی لہر میں لاک ڈاون کے دوران کاروبار کو سخت نقصان پہنچا تھا اور اب وہ 25 کھدر مشینوں کی بجائے صرف پانچ مشینوں پر کام چلا رہے ہیں جبکہ باقی مشینیں بند پڑی ہیں۔
دوسری جانب کھدر کی مشینوں پر بننے والے کپڑوں کی طرح چارسدہ میں بننے والے چپل بھی بہت زیادہ مشہور ہیں اور اپنی ایک خصوصی شناخت رکھتی ہیں، چارسدہ میں اس وقت چپل بنانے والی ایک ہزار دوکانیں رجسٹرڈ ہیں جن میں 12 ہزار کے لگ بھگ کاریگر اور مزدور کام کر رہے ہیں، کورونا وباء سے کھدر کی طرح چارسدہ کی چپل صنعت اور کاروبار کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اس روزگار سے وابستہ افراد بہت متاثر ہوئے ہیں۔
کورونا لاک ڈاون کے دنوں میں اگر اور شعبہ جات ہائے زندگی کے معاملات کو کافی نقصان پہنچا تو ماہرین ماحولیات نے لاک ڈاون کے دنوں کو ماحول کے لئے فائدہ مند قرار دیا۔
کرونا وباء کی وجہ سے جب دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے شہروں اور قصبوں میں لاک ڈاون نافذ کیا تو گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد اور دھواں خارج کرنے والے کارخانوں سمیت انڈسٹری بند ہوئی تو ماحولیات کے ماہرین کے مطابق یہ عمل وقتی طور پر ماحول کی صفائی کیلئے بہت اچھا ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل سے ماحولیاتی آلودگی بہت حد تک کم ہوئی تاہم یہ کوئی دیرپا حل نہیں کیونکہ لاک ڈاون ختم ہوتے ہی دوبارہ ماحول گندہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔https://www.youtube.com/watch?v=JlkM5EIjUsU
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر نفیس نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماربل انڈسٹری سے نکلتا ہوا ویسٹ نہ صرف ماحول کو گندا کرتا ہے بلکہ یہ زیر زمین پانی کو بھی متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ انسان کو کینسر یا جوڑوں جیسی بیماری میں مبتلا کرتا ہے جس کا علاج پھر مشکل ہو جاتا ہے۔