”یہ بلند پہاڑ یہ جنگل اور یہ بالکل خاموش دریا، کیسا مزہ کرتے ہیں”
ناصر زادہ
کرونا وائرس نے دیگر شعبوں کی طرح سیاحت کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ سال 2020 پاکستان کے لیے سیاحت کا سال سمجھا جاتا تھا تاہم کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کر کے سیاحتی مقامات کو بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے سیاحت سے منسلک افراد کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، زیادہ تر لوگوں نے اس کاروبار کو چھوڑ دیا اور بعض کو لاکھوں روپے نقصان اٹھانا پڑا۔
45 سالہ شوکت خان کا تعلق اپر دیر کے علاقہ تھل کوہستان سے ہے جو پچھلے پانچ سالوں سے کمراٹ میں ایک ہوٹل چلا رہے ہیں۔ شوکت کے مطابق تین چار سالوں سے ان کا کاروبار بہت زبردست چل رہا تھا اور جب وزیراعظم عمران خان اور امریکی جریدے نے کہا کہ سال 2020 پاکستان کے سیاحت کا سال ہو گا تو ان کو امید تھی کہ اس سال ان کا کاروبار اور بھی زیادہ ترقی کرے گا تو میں نے کمراٹ میں اپنے ہوٹل کو مزید وسیع کیا اور اس کی تزین و آرائش کی، نیا فرنیچرز لگایا، میرا خیال تھا کہ اس سال ملکی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں کمراٹ آئیں گے تو میرے ہوٹل کا معیار بہتر ہونا چائیے لیکن جب مارچ میں کرونا وائرس نے سر اٹھایا اور پھر لاک ڈاؤن شروع ہوا تو ان کا سیزن بھی خراب ہو گیا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن میں ہوٹل بند ہونے کہ وجہ سے میرے ہوٹل کا عملہ سب بے روزگار ہوا، میرے ساتھ ہوٹل میں 30 لڑکے کام کرتے ہیں جن میں منیجر، ویٹرز اور باورچی شامل ہیں، کرونا وائرس کی لہر کم ہو جانے کے بعد جب حکومت نے سیاحتی مقامات کھول دیے تو ہم نے ہوٹل ایس او پیز کے تحت دوبارہ سٹارٹ کیا لیکن ہوٹل عملہ کو کم کر دیا، ظاہری بات ہے کہ ہم نے جو بندے فارغ کیے وہ بے روزگار ہو گئے۔
شوکت نے کہا کہ ہمارے ہوٹل کا سالانہ رینٹ نو لاکھ روپے ہے، اس سال سیزن کا زیادہ تر حصہ لاک ڈاؤن میں گزرا اور بمشکل دو مہینے ہم نے کاروبار کیا، موسم سرما میں تو ادھر برفباری ہوتی ہے جس سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور موسم سرما میں بہت کم تعداد میں سیاح یہاں آتے ہیں۔
حنیف خان گزشتہ تین سالوں سے جیپ گاڑی چلا رہے ہیں، ان کے پاس سات جیپ ہیں جو کہ سیاحوں کو کمراٹ کی خستہ حال سٹرکوں اور کالہ چشمے تک لے جاتے ہیں۔ ”میں نے اس سال دو نئی جیپ خریدیں اور توقع تھی کہ اس سال پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ کام ہو گا اور سیاح بھی زیادہ آئیں گے، گاڑیوں میں سیاحوں کے لیے تمام تر سہولیات مہیا کیں لیکن جب لاک ڈاؤن شروع ہوا اور پھر یہ طویل بھی ہو گیا،کمراٹ، جاز بانڈہ، باڈگوئی، لواری ٹاپ، عشیری درہ اور دیگر سیاحتی مقامات بند ہو گئے تو پھر میں نے تین گاڑیاں تاوان پر بیچ دیں، میرے ساتھ ڈرائیور سمیت پندرہ افراد برسر روزگار تھے، وہ بھی بے روزگار ہوئے، اب چونکہ لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے لیکن ہمارا سیزن موسم گرم میں ہوتا ہے اس لئے اب یہاں پر سردی شروع ہوئی ہے، اب بھی سیاح آتے ہیں لیکن اتوار یا جمعہ کے دن وہ بھی صرف ایک یا دو دن کے لئے زیادہ ٹائم وہ ادھر نہیں رہ سکتے کیونکہ یہاں سردی شروع ہو چکی ہے اور سیاح اب یہاں پر سردی کی وجہ سے تنگ ہو جاتے ہیں اور ہاں نومبر سے مارچ تک یہاں برفباری ہوتی ہے، جاز بانڈہ، باٹ گوئی اور وای کمراٹ کے دیگر قریبی سیاحتی علاقوں کی سڑکیں برفباری سے بند ہو جاتی ہیں اس وجہ سے سیاح یہاں نہیں آتے اور نہ ہم سیاحوں کو ان علاقوں میں پہنچا سکتے ہیں اس وجہ سے ہم بھی بے روزگار ہو جاتے ہیں، رواں سال ایک طرف ہمارا سیزن کرونا وائرس کی وجہ سے خراب ہوا تو دوسری طرف ہم پر قرضہ چڑھا اور اب سردی آئی اس وجہ سے ہماری مشکلات میں کمی کی بجائے روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔”
ملاکنڈ ڈویژن میں قیام امن کے بعد بڑی تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاحوں نے شمالی علاقہ جات کا رخ کیا اور سال 2019 میں پانچ لاکھ سے زائد سیاح خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا وادی کمراٹ کی طرف آئے تھے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں 79.1 ملین ڈالر، سال 2017 میں 86.6 کروڑ ڈالر جبکہ سال 2018 میں 81.8 کروڑ ڈالر آمد سیاحت کے شعبے سے ہوئی تھی۔
ثمینہ عباسی کا تعلق مانسہرہ سے ہے، آج کل ملتان میں رہائش پذیر ہیں، کہتی ہیں کہ میں نے انٹرنیٹ پر وادی کمراٹ کی بہت سی ویڈیوز دیکھی تھیں اور کئی سالوں سے یہ خواہش تھی کہ وادی کمراٹ کی سیر کروں لیکن ممکن نہیں ہو رہا تھا اس سال آنے کا پروگرام بنایا تو کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن آڑے آ گئے لیکن جب لاک ڈاؤن ختم ہوا اور حکومت نے سیاحتی مقامات سے پابندی ہٹائی تو ہم فیملی کے ساتھ دیربالا آئے ہیں، میرے ساتھ میرا شوہر ہے اور بچے بھی ہیں واقعی دیر بالا اور خاص کر وادی کمراٹ ایک خوبصورت علاقہ ہے، یہاں کے بلند و بالا پہاڑ، آبشاریں اور دریائے کمراٹ کا صاف و شفاف پانی بہت مزہ دیتا ہے، دل نہیں کرتا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر واپس جائیں، اب چونکہ یہاں پر ٹھنڈ بھی زیادہ ہے لیکن ہم نے یہ بھی انجوائے کیا، ملتان کی گرمی تو پورے پاکستان میں مشہور ہے، ہم ادھر سے آئے ہیں اور یہاں کا موسم ہمیں خوشگوار لگتا ہے، زیادہ تنگ نہیں کرتا، یہاں کے سیاحتی مقامات بہت دلکش ہیں لیکن سڑکوں کی حالت بہتر نہیں ہے، اگر صوبائی حکومت یہاں کی سڑکوں پر توجہ دے تو اس سے زیادہ سیاح یہاں پر آئیں گے، ہم اپنی کار میں ملتان سے آئے لیکن تھل سے آگے ہماری کار نہیں جا سکی تو ہم نے جیپ والے سے بات کی، اب ہم جیپ میں سفر کرتے ہیں اور پورے کمراٹ کا نظارہ کیا، کالا چشمہ جو کہ بہت دور ہے ہم وہاں پیدل نہیں جا سکتے جیپ کے ذریعے وہاں پر پہنچے، دن کو ہم یہاں کے دلکش نظاروں سے لطف اندور ہوتے ہیں اور رات کو آگ جلا کر بار بی کیو انجوائے کرتے ہیں۔
سہیل خان ایک سوشل ورکر ہے اور سیاحت کا بہت شوقین ہے وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ کمراٹ کی سیر پر نکلا ہے، اس کا کہنا ہے کہ کمراٹ کے علاوہ انہوں نے دیر بالا کے دیگر سیاحتی مقامات عشیری درہ، لام چڑ آبشار، سیدگئی جھیل، شاہی، لواری ٹاپ، سکائی لینڈ علاقے بھی دیکھیں سب بہت خوبصورت ہیں، عام طور پر ہم دیر بالا کے سیاحتی مقامات دیکھنے کے لیے جون جولائی میں جاتے تھے لیکن اس سال چونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے سیاحتی مقامات بند تھے تو ہم بھی گھروں تک محدود تھے اس وجہ سے بہت بور ہوئے تھے اب چونکہ اکتوبر کا مہینہ ہے اور یہاں کمراٹ میں موسم سرما شروع ہو گیا ہے تو یہاں پر بہت ٹھنڈ ہے لیکن ہم نے موسم سرما کے انتظامات کیے اپنے ساتھ گرم کپڑے کمبل اور دیگر گرم ملبوسات لائے اور ادھر پہنچے ہیں، دوستوں نے یہاں پر بہت انجوائے کیا۔
سہیل نے بتایا کہ یہ بلند پہاڑ یہ جنگل اور یہ بالکل خاموش دریا کیسا مزہ کرتے ہیں، ہم نے یہاں کی ٹراوٹ مچھلیاں انجوائے کیں جو بہت لذیز ہیں، ہوٹل عملہ کا رویہ دوستانہ ہے، بہت خوش اخلاقی عملہ ہے جو ہمیں گائیڈ کرتے ہیں بس اب دل نہیں کرتا کہ ہم یہاں سے جائیں، ہمارے پاس چھوٹی گاڑی تھی جو کہ تھل کی مشہور مسجد تک با آسانی آئی لیکن وہاں سے کمراٹ اور کالہ چشمہ تک سٹرک انتہائی خراب ہے اس وجہ سے ہم نے رینٹ پر یہ جیپ گاڑی لی ہے، ایک تو یہ ہر جگہ جا سکتی ہے اور دوسرا اس سڑک پر جو کہ ہر طرف پتھر ہی پتھر ہے اس گاڑی میں سفر ممکن ہے۔
35 سال ماجد خان سیاحت میں بہت تجربہ رکھتا ہے، اس وجہ سے گزشتہ دو سالوں سے وہ ٹوارزم ڈپارٹمنٹ میں ملازم کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، ماجد خان خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی (ٹوارزم انفارمیشن سنٹر دیر بالا کے انچارج ہیں) ماجد خان کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے جیسا کہ دنیا بھر کی معیشت کو نقصان پہنچا اس طرح سیاحت کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے، کرونا وائرس کی وجہ سے خیبر پختونخوا کی سیاحت کو اور پھر ملاکنڈ ڈویژن اور اس طرح ایک اندازے کے مطابق ایک ارب روپے دیر بالا کو نقصان پہنچا ہے۔
ماجدخان نے کہا کہ ہم نے سروے کیا ہے، 2016 میں کمراٹ میں صرف 35 ہوٹلز تھے، اب 2019/20 میں 250 ہوٹل بنے ہیں اور سیزن میں ان ہوٹلز میں جگہ کم پڑ جاتی ہے اور زیادہ تر سیاح اپنے ساتھ ٹینٹ لاتے ہیں یا ادھر کرائے پر ٹینٹ حاصل کرتے ہیں اور اس میں وقت گزارتے ہیں، اب چونکہ کمراٹ ڈولپمنٹ اتھارٹی بھی بن گئی، سابق صوبائی وزیر کلچر اینڈ ٹورازم عاطف خان نے گزشہ سال کمراٹ کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے اس اتھارٹی کی منظوری دی تھی، اب باقاعدہ طور پر کمراٹ ٹورازم کاروپوریشن کو اتھارٹی میں تبدیل کیا، اس کی وجہ سے کمراٹ کی سیاحت کو مزید فروع ملے گا۔
ماجد خان کہتے ہیں کہ پہلے دیر بالا اور کمراٹ، جاز بانڈہ اور باڈ گوئی جو سیاح آتے تھے ان میں اکثریت خیبر پختونخوا یا غیر ملکی ہوتے تھے لیکن 2018 کے بعد میں نے خود دیکھا کہ پنچاب، سندھ اور بلوچستان سے کثیر تعداد میں سیاح دیر بالا کے سیاحتی مقامات کا وزٹ کرتے ہیں، ان کے ساتھ فیملی بھی ہوتی ہے اور وہ ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کے بجائے دیر بالا میں خود کو پرامن محسوس کرتے ہیں اور یہاں کے دلکش نظاروں کی تعریف کرتے ہیں۔
ماجد نے کہا کہ 2016/17 میں تین لاکھ سیاحوں نے دیربالا کا وزٹ کیا، سال 2018/19 میں یہ ریشو مزید بڑھ گیا اور پانچ لاکھ افراد نے دیر بالا کے سیاحتی مقامات کا رخ کیا، سال 2020 تو پورے پاکستان کے لیے سیاحت کا سال تھا لیکن بدقسمتی سے کرونا وائرس نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا پھر بھی جب لاک ڈاؤن ختم ہوا اور سیاحتی مقامات کھول دیئے گئے تو سیاح کمراٹ، جاز بانڈہ، عشیری درہ، لام چڑ آبشار، باڈ گوئی شاہی اور دیگر سیاحتی مقامات آئے لیکن توقع سے کم سیاح آئے۔
کمراٹ دیر بالا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے، مئی 2016 میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجودہ وزیر اعظم نے دیر بالا اور کمراٹ کا نجی دورہ کیا تو اس کی وجہ سے کمراٹ بہت ایکسپوز ہوا، ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا اور یوٹیوب میں وائرل ہو گئی اور دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے کمراٹ کی خوبصورتی سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھی، اس طرح عمران خان نے الیکشن مہم کے دوران اپنے تاریخی جلسہ مینار پاکستان میں بھی کمراٹ کی تعریف کی اور کہا کہ میں دنیا میں بہت گھوما ہوں لیکن کمراٹ جیسی خوبصورت جگہ نہیں دیکھی اس کے بعد سیاحوں نے کمراٹ کا وزٹ شروع کیا اور ہر سال لاکھو ں کی تعداد میں سیاح دیر بالا اور کمراٹ کی سیر کے لیے آتے ہیں۔
سیاحت سے جڑے ہوٹل مالکان اور رینٹ اے کار مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سال چونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے ان کا نقصان ہوا ہے اور ان کے ملازم بے روزگار ہوئے ہیں حکومت ان کے کاروبار کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرے اور ساتھ ہی امداد بھی دے تاکہ اگلے سیزن کے لیے وہ اپنے کاروبار کو بہتر بنا سکیں اور ان کا جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ہو سکے۔