کورونا، مسافروں کی موت، رشتہ داروں کیلئے صدمہ بھی آزمائش بھی
سی جے طارق عزیز سے
کرونا کی وجہ سے اگر ایک طرف پورے ملک میں ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ لوگ وفات پا گئے تو دوسری طرف بیرون ملک میں مقیم سینکڑوں پاکستانی بھی موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔
اس دوران مرنے والے مسافروں کی موت اگر ایک طرف ان کے رشتہ داروں کیلئے بڑا صدمہ ہے تو دوسری طرف ان کی لاشیں وطن لانا بھی کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں۔
وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے 26 فروری سے جولائی کے اخر تک بیرون ملکوں میں 1259 لوگ جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے صرف 123 کی لاشیں وطن لائی گئی ہیں جبکہ باقی تقریباً ساڑھے گیارہ سو کے قریب میتیں باہر ممالک میں دفن کی گئی ہیں۔
شانگلہ کے ایک گاؤں شہتوت سے تعلق رکھنے والے شیرزمین کرونا کی وجہ سے سعودی عرب میں وفات پا گئے تھے، اور ان کی میت پاکستان لائی گئی تھی، میت کی وطن واپسی کیلئے ان کے ماموں شیر ہہادر کو بہت تگ و دو کرنا پڑی۔
میت کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے درپیش مشکلات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام کبھی ایک جگہ بھیجتے، کبھی دوسری جگہ، مختلف جگہوں سے کاغذی کارروائی اور کلیئرنس بہت مشکل مرحلہ تھا۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی گفتگو میں شیر بہادر نے کہا، "ہسپتال میں بہت سے مسائل پیدا کیے گئے جس کی وجہ سے ہم سے ایک فلائٹ بھی مس ہو گئی، دو دن سعودی انتظامیہ نے میت کو ائیرپورٹ پر روکے رکھا، پھر ہم نے دوڑ دھوپ کی اور دوبارہ ٹکٹ کا انتظام کروایا اور پھر رات کے 8 بجے کارگو والوں کے حوالے کیا۔”
اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں دی گئی، میت بھی ایک غیر سرکاری تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے اپنی ایمبولینس میں شانگلہ تک پہنچائی تھی۔
بیرون ملک میں محنت مزدوری کرنے والے پاکستانی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن کرونا کے اس سخت وقت میں حکومت نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اس حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں نے مختلف پلیٹ فارمز پر آواز بھی اٹھائی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکٹری سردار حسین بابک نے کہا، ”بہت بڑی بدقسمتی یے کہ کرونا کے دوران ان مسافر بھائیوں کو ٹکٹوں کی آڑ میں بہت بے دردی سے لوٹا گیا، 200 سے لےکر 300 فیصد تک ٹکٹ مہنگے کئے گئے، اور وہ بھی سفارش پر ملنے لگے، ٹکٹ اتنے مہنگے کئے گئے کہ ان اسے خریدنا غریبوں کے بس کی بات نہ رہی۔”
سردار حسین بابک کا کہنا تھا کہ کئی دنوں تک یہ میتیں ان مسافروں کے ساتھ ان کی رہائشگاہوں میں پڑی رہیں کیونکہ وہ ٹکٹ بھی سفارش پر ملتے تھے۔
انہوں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انتظامی طور پر یہ حکومت اتنی نااہل ہے کہ مرنے والوں کی لاشیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے ملک منتقل نہ کر سکی۔
کرونا کے دوران میتوں کی اپنے ملک منتقلی کے حوالے سے دبئی میں مقیم شانگلہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نیاز خان بھی حکومت سے گلہ مند نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ میتوں کی اپنے ملک منتقلی میں بے شمار مسائل تھے۔
نیاز خان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وباء تو پوری دنیا میں تھی، ان میں سے کچھ لوگ انتقال بھی کر گئے اور ہر طرف سے مشکلات ہی مشکلات تھیں، فلائٹ بند، قونصل خانہ کسی بھی قسم کی مدد یا تعاون سے انکاری یہاں تک کہ جہاں مردے رکھے جاتے وہاں پہ بھی سخت حفاظتی اقدامات تھے، ”تو اسی وجہ سے کوئی امکان نہیں تھا، انتظامیہ اپنے طریقے پر میت کو دفن کرتی تھی اور اگر کسی کے رشتہ دار آ جاتے تو بھی دور سے انہیں آخری دیدار کروایا جاتا۔”
بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اور ان کے رشتہ دار حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے متاثرہ تمام سمندر پار پاکستانی خصوصاً خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی مدد کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔