کورونا، سیلاب اور میڈیا سیاحوں کو سوات کی سیر سے باز نہ رکھ سکے
رفیع اللہ خان
پاکستان کے سیاحتی مقامات میں وادی سوات ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ہر سال جہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں تاہم امسال کرونا وباء کے باعث حکومتی احکامات کے بعد سیاحت کے شعبے کو بند کر دیا گیا تھا لیکن صورتحال میں بتدریج بہتری کے بعد اب یہ صنعت بحال ہو رہی ہے اور سیاح دوبارہ دلکش سیاحتی مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔
فائزہ کا تعلق چارسدہ سے ہے. وہ کرونا وباء کے بعد پہلی بار سوات پہنچنے پر خوش دکھائی دے رہی ہیں۔
فائزہ کہتی ہیں کہ وہ ہر سال جون، جولائی میں سوات آتی تھیں لیکن اب کی بار کرونا وباء کی وجہ سے ہم لیٹ ہو گئے۔ہم یہاں ابھی آئے ہیں کیونکہ گھر میں تنگ ہو چکے تھے۔ اب یہاں کافی خوش اور دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فی الحال وہ اپنی چھٹیاں یہاں انجوائے کر رہے ہیں۔
مینگورہ شہر کے قریب تفریحی پارک فضاگٹ میں سیاحوں کا ایک ہجوم ہے، ٹولی کی شکل میں چند لڑکے ایک جگہ جمع ہیں اور سہانے موسم میں تصویریں اتار رہے ہیں۔ ان نوجوانوں میں قبائلی ضلع باجوڑ کے رہائشی بلال بھی موجود ہیں۔ کورونا بندش کے بعد اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سوات میں فضاگٹ پارک آیا ہوں، یہاں بہت زبردست اور مزیدار ماحول ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موسم کافی ٹھنڈا ہے حالانکہ دیگر شہروں میں موسم اب بھی نسبتاً گرم ہے۔ بلال نے بتایا کہ ہم تین دوست ہیں اور تقریباً ایک ہفتہ یہاں گزاریں گے، کل ملم جبہ جائیں گے جبکہ اگلے دن کالام جائیں گے۔ انہوں نے تمام علاقے دیکھنے کا عزم کیا ہے۔
مینگورہ میں قائم ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر میں کام کرنے والے ٹور گائیڈز سیاحتی سرگرمیوں کی بحالی کے بعد انتہائی خوش دیکھائے دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی مہینوں کے انتظار کے بعد ان کا روزگار بحال ہوا ہے تاہم ٹورسٹ گائیڈ اکبر علی نے بتایا کہ گزشتہ دنوں آنے والے سیلاب نے تین دیہات کو متاثر کیا تھا تاہم میڈیا نے پورے سوات کو متاثر دکھا کر سیاحوں کو آنے سے روکا جبکہ یہاں موجود سیاح بھی سوات چھوڑ کر چلے گئے۔
اکبر علی نے بتایا کہ پہلے تو ہر کوئی کہتا تھا کہ وباء آئی ہے اور کاروبار نہیں ہے وہ تو وباء آئی تھی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں میں لیا تھا، اس سے ہم بھی بہت متاثر ہوئے تھے لیکن شکر الحمد اللہ ابھی حالات کافی بہتر ہیں لیکن پھر بارشیں شروع ہو گئیں اور ہماری میڈیا نے تو حد کر دی، 2010 سیلاب کی فوٹیج دکھا کر مہمانوں کو ڈرایا گیا اور اسی طرح مہمانوں کی تعداد کم ہو گئی حالانکہ یہاں کچھ ہوا نہیں اور میڈیا والے کہتے ہیں کہ سوات تباہ ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سوات کیسے تباہ ہو گیا؟ سوات بالکل فعال ہے۔ ٹھیک ہے کھبی سیلاب اور کھبی زلزلہ آئے گا لیکن ہم اللہ کے آسرے بیھٹے ہیں، مہمانوں کا انتظار کر رہے ہیں اور سیاحت جتنی پروان چڑھے گی اتنا ہی ہمارا فائدہ ہے۔
سوات کی 80 فیصد آبادی کے معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر الحاج زاہد خان نے بتایا کہ رواں سال کورونا وباء کی وجہ سے سوات کی سیاحت کو ساڑھے 9 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور وباء کے دوران پچیس ہزار افراد بے روزگار ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ سے لیکر اگست تک ہمارا سیزن ہوتا ہے پھر آگے مہمان نہیں آتے۔ زاہد خان نے بتایا کے ہوٹل انڈسٹری کو اس وباء سے ساڑھے نو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مینگورہ شہر میں بھی ایسے ہوٹلز ہیں جو مالکان نے یا تو ہاسٹلز، کلینکس اور یا پھر دفاتر میں تبدیل کر کے ختم کر دیئے ہیں۔
محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کے مطابق خیبر پختونخوا میں کل 471 ہوٹلز اور 671 ریسٹورینٹس ہیں تاہم اس کے علاوہ ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں سینکڑوں ایسے ہوٹلز موجود ہیں جو ابھی تک محکمہ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔