خیبر پختونخواکورونا وائرس

”کرونا میں مبتلا ہوا تو سب سے زیادہ موت کے خوف نے آ گھیرا تھا”

سینا نعیم

پشاور کا رہائشی فاروق جو کہ پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور ہے کرونا وبا  کا شکار ہونے کے بعد نفسیاتی مسائل کا شکار رہا تھا۔ فاروق نہ صرف حکومت کی جانب سے قائم شدہ مفت ہیلپ لائن کے ذریعے طبی مشورے لے چکا ہے بلکہ وہ حکومت کی جانب سے فراھم کیئے گئے مالی تعاون پر بھی ان کا شکر گزار ہے۔ فاروق کا کہنا ہے کے کرونا میں مبتلا ہونے پر اسے سب سے زیادہ موت کے خوف نے آ گھیرا تھا۔

میرے ساتھ یہی پریشانی تھی کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس بیماری کی وجہ سے جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے تاہم پھر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایک ڈاکٹر سے بات ہوئی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ خود کو مصروف رکھیں اور اپنی مصروفیات کو بڑھا لیں، اس بارے میں نہ زیادہ سوچیں اور انہی کے مشورں پر عمل کرتے پھر میں نے خود کو مصروف کر لیا۔

عالمی وبا کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک طرف لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے تو دوسری طرف اس بیماری کے خوف اور دہشت نے عوام الناس کو شدید نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار کر دیا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا حکومت نے اس وبا کے نفسیاتی اثرات سے لوگوں کو محفوظ بنانے اور ان میں اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی غرض سے مفت ہیلپ لائن کا اجراء وبا کے شروع ہوتے ہی کیا تھا۔ اسی مفت ہیلپ لائن کے ذریعے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ عملہ نے اب تک 3 لاکھ سے زائد مریضوں کو نہ صرف کرونا بلکہ اور بھی مختلف بیماریوں کے حوالے سے مفت مشورے اور معلومات فراہم کر چکا ہے۔ تاہم ان میں کرونا وبا کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کے شکار مریضوں کی شرح زیادہ ہے۔

خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ہر ضلعی ہيڈکوارٹر میں بیٹھا عملہ ابھی تک لوگوں کو ٹال فری نمبر کے ذریعے طبعی مشورے فراھم کر رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کی جانب سے سرکاری ٹیلیفون کے ذریعے مشورے فراہم کرنے کی یہ سروس پہلی بار 2014 میں آرمی پبلک سکول کے خونریز واقعے سے متاثرہ نفسياتي مريضوں کو نفسیاتی امداد فراہم کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی تاہم اس سروس کو اب کرونا وبا میں صوبے کے ہر ضلع تک پھیلا دیا گیا ہے۔

پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اکرام اللہ کا کہنا ہے کہ ”پرونشل لیول پر ٹول فری نمبر 1700 ہے،  اس میں کرونا کے حوالے سے معلومات یا اس حوالے سے اگر آپ محکمہ صحت سے کوئی امداد لینا چاہتے ہیں جیسے کہ داخلہ کے بارے میں معلومات، سوشل سائیکٹرک سروسسز یا ذہنی صحت سے متعلق مسائل کے لئے  ایکسٹنشن 3 ڈائل کرنا ہوتا ہے۔”

ڈاکٹر اکرام الله کا مزید کہنا ہے کہ ویسے تو بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مشورے دیے جا چکے ہیں لیکن اب تک اس سروس کے ذریعے پانچ سو ایسے مريضوں کو ان کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے مشورے فراہم کئے جا چکے ہیں جن کی بیماری شدت اختیار کر چکی تھی۔ تقریباً پانچ سو لوگ تھے جن میں ان کے فیملی ممبرز بھی شامل ہیں وہ سب پازیٹو کیسزز تھے جن کو ہم نے سروسز فراہم کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کالز بہت آئی ہیں لیکں باقی کالرز سے آگاہی کے حوالے سے باتیں ہوئی ہیں لیکن یہ ایسے تھے جو کہ بیمار تھے اور ان کا علاج کیا گیا۔

محکمہ صحت کی ڈاکٹر نیلم نے مختلف مسائل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے وقت ٹی این این کو یہ بھی بتایا کہ ہم اس سروس کو کامیاب اس وجہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس پر لوگ تاحال کالز بھی کرتے ہیں اور اس سروس کو بااعتماد بھی سمجتے ہیں۔ "زیادہ تر کالرز کو خوف ہوتا ہے، ان میں دو قسم کا خوف ہوتا ہے ایک تو یہ کہ ان کو یا ان کے خاندان کو یہ بیماری نہ لگ جائے اور اس وجہ سے ان کی موت واقع نہ ہو اور دوسری پریشانی ان لوگوں کو ہے جن کو اس بیماری کی وجہ سے معاشی تنگی کا سامنا رہا ہے اور اس حوالے سے وہ ذہنی پریشانی کا شکار ہیں۔

کرونا کی وبا میں حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری سماجی تنظیمیں بھی پیچھے نہیں رہیں اور ملکی سطح پر کئی اور اداروں کے ساتھ ساتھ پشاور میں "د حوا لور” نامی ایک سماجی ادارے کی جانب سے مقرر کردہ ماہرین نفسیات نے بھی کرونا وبا کے دوران لوگوں کو مفت ٹیلیفون سروس کے ذریعے نہ صرف مشورے دیے بلکہ ان کا علاج بھی کیا۔ تاہم ان کا خصوصی ٹارگٹ معاشرےکا سب سے کمزور طبقہ یعنی ٹرانسجنڈر اور خواتین تھیں۔

اس ادارے کی ڈاکٹر فرحت کا کہنا ہے "ہمیں اگر اس نمبر پر کوئی مسیج یا مس کال بھی آتا تھا تو ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ہم خود رابطہ کریں، میں نے کرونا وبا کے دوران ٹیلیفون کے ذریعے پچاس سے زائد کیسسز سے خود ڈیل کئے، ان میں خواتین بھی تھیں اور ٹرانسجنڈر بھی تھے۔"

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button