کیا واقعی بعض سکول مقررہ حد سے بھی زیادہ فیس معاف کر رہے ہیں؟
نبی جان اورکزئی
ملک میں کرونا وباء میں کمی آنے کے بعد دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی تعلیمی ادارے بحال ہو گئے ہیں ۔ کرونا وباء کی وجہ سے چھ ماہ کے بعد حکومت نے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا اور بالاخر ستمبر سے مرحلہ وار ادارے کھل گئے۔
تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد پرائیویٹ سکولز اور کالجز کے اساتذہ کی تنخواہوں اور طلباء کی فیسوں کا مسئلہ گھمیبر ہوتا گیا۔ کئی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اپنے سکولز اور کالجز سے وباء کے دنوں میں چھٹیوں کی تنخواہوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ تعلیمی ادارے اساتذہ کی تنخواہوں کو طلباء کی جانب سے فیس ادا کرنے سے نتھی کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سلسلے میں عدالت کی جانب سے خصوصی ہدایات اور اس کے نتیجے میں باقاعدہ ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا ہے لیکن لگ یہی رہا ہے کہ والدین کو عدالتی احکامات اور آرڈیننس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
شاپنگ مال میں اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے پشاور کے محمد جمیل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کرونا وباء سے پہلے ماہانہ اپنے بچوں کی سکول فیس جمع کروا رہے تھے جس سے ہم پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا تھا لیکن اب چونکہ وباء کے دنوں میں میرے اپنے مالی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے، وسائل منجمد ہو گئے ہیں جبکہ خود لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر پر رہا ہوں اس لئے اب چھ ماہ کی فیس دینا میرے لئے ناممکن ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب یا تو مجھے بچوں کی فیس معاف کرانا ہو گی یا پھر بادل نخواستہ سکول سے ہی نکالنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ فیسو ں کے متعلق مقامی عدالتوں میں والدین کی جانب سے کئی کیسز جمع کرائے گئے تھے جس پر عدالت نے معاملے کو کے پی ایس آر اے کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعد صوبائی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس میں اتھارٹی کو چھ ہزار سے زیادہ فیس لینے والے تعلیمی ادارے بیس فیصد جب کہ چھ ہزار سے کم فیس لینے والے اداروں کو دس فیصد رعایت دینے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ اتھارٹی نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ آرڈیننس تمام نجی تعلیمی داروں کو ارسال کرتے ہوئے اس پر فوری عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی۔
آرڈیننس کے حوالے سے اتھارٹی کے منتخب ممبر انس تکریم کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری حکم نامے پر مکمل عملد درآمد ہوتی ہے اور اتھارٹی نے تمام اداروں کو ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ والدین سے حکومت کی جانب سے وضع کردہ فیصلوں کے مطابق فیس وصول کی جائے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس آرڈیننس پر عملد درآمد کرنے کے لئے اتھارٹی نے ضلعی سکروٹنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر کو بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ خلاف ورزی کرنے والے اداروں کے خلاف ایکشن لیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ والدین سے درخواست ہے کہ اگر کوئی سکول ان سے وضع کردہ فارمولے سے زیادہ فیس کی ڈیمانڈ کرتا ہے تو متعلقہ ضلع کے ڈی سی یا سکروٹنی کمیٹی سے شکایت کریں جس پر ان کی داد رسی ضرور کی جائے گی۔
پشاور میں واقع حراء پبلک سکول کے مالک فضل اللہ داؤد زئی کا کہنا ہے کہ کرونا کے دوران معاشی بحران سے دوچار تعلیمی ادارے والدین کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں اور والدین سے آرڈیننس میں وضع کردہ ہدایات کے عین مطابق فیس وصول کی جاتی ہے۔ انھوں ںے کہا کہ بہت سے ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو طلباء کے لئے اس سے بھی زیادہ فیس معاف کر رہے ہیں اور یہ کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب سے والدین کے ساتھ تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ میں کیس جمع کرنے والے وکیل سنگین خان کا کہنا تھا کہ مذکورہ آرڈیننس کو نجی سکولوں کے مالکان کی جانب سے دباؤ اور حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ زیادتی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت میں کیس اس لئے جمع کیا تاکہ کرونا کی وجہ سے مالی بحران کے شکار والدین کو ریلیف مل سکے اور سکول مالکان تمام فیسیں معاف کر دیں کیونکہ کرونا کے دوران والدین بھی بے روزگار تھے تو فیسیں کہاں سے جمع کرائیں گے۔
سنگین خان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ بچوں کے والدین کی بے بسی پر رحم کرے اور کرونا دوران فیسوں میں والدین کو مکمل ریلف دی جائے، اگر حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ممکن ہے کہ اکثر والدین اپنے بچوں کو سکولوں سے نکال دیں گے۔