عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویوماحولیات

موسمیاتی تبدیلی سے خانہ بدوش یا بکروال بھی محفوظ نہیں رہے، خانہ بدوشوں کا گزارا مشکل

کیف آفریدی

ہمارے باپ دادا بھی یہی کام کرتے ہیں اور ہم نسلوں سے ایسے ہی خانہ بدوشی کی زندگی جی رہے ہیں، ہمارا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا ہم عموما ایک جگہ پر تقریبا چھ مہینے تک گزارتے ہیں۔ پر موسمیاتی تبدیلی سے کئی سالوں سے انکی زندگی پر بڑا اثر پڑا ہے۔ دیکھا جائے تو گرمی کی شدت گرم ترین تک ہوتی جارہی ہے، تو ایسے حالات میں خیموں میں رہنا یا باہر بھیڑ بکریوں کو چرانا ہمارے لیے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ جبکہ سردیوں میں ہم پنجاب کے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ کہنا ہے خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقہ درہ آدم خیل کے خشک کھیتوں میں مقیم خانہ بدوش 24 سالہ تعویز گل کا۔ وہ کہتے ہیں کہ انکا تعلق افغانستان کے علاقے پکتیا سے ہے۔ سینکڑوں بھیڑ بکریوں کو میلوں پیدل سفر کرنا اور انکی دیکھ بال کرنا بس یہی زندگی ہے انکی۔

تعویز گل کا کہنا ہے کہ یہاں انکے خاندان کے بارہ افراد رہتے ہیں جس میں بڑے، خواتیں اور چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ روزانہ اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے نکلتے ہیں پر گرمی کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ انکے لیے بھیڑ  بکریاں چرانے میں مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔ ہمارے آباؤاجداد کہتے ہیں کہ پہلے اتنی سخت گرمی نہیں ہوتی تھی پر یہ کئی سالوں سے گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

ہم پہلے پشاور کے شمشتو کیمپ میں بھی رہائش پزیر ہوتے تھے پر زیادہ گرمی کی وجہ سے ہمارے لیے وہاں پر رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیوںکہ خیموں میں گرمی زیادہ ہوتی ہے اور ہمارے بچے بھی پھر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھی بارشیں اتنی تیز ہوتی ہیں یا طوفان آجاتا ہے جس کی وجہ سے بھی انکو مشکلات کا سامان ہوتا ہے انکے خیمے خراب ہو جاتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کی دیکھ بال بھی خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔

موسمیاتی تغیر نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہر سال گرمی کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ سردیاں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال جون اور جولائی میں سخت ترین گرمی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ لوگ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خانہ بدوشوں کے رہن سہن پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے انوارمنٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس نے ٹی این این کو بتایا کہ کوچیان یا بکروال جو کہ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں یہاں پر انکی تین اقسام تھے۔ ایک پاکستان اور افغانستان کا بکروال سسٹم تھا، دوسرا پاکستان اور بھارت کا جبکہ تیسرا پاکستان کے اندر کا سسٹم ہیں۔  پاکستان کے اندر کا جو سسٹم بکروال کا موجود ہیں اس میں خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کا سسٹم شامل ہیں۔

خیبرپختونخوا کے بکروال سردیوں میں میدانی علاقوں جیسے کہ اٹک، ہری پور اور فتح پور وغیرہ تک آتے ہیں۔ جبکہ گرمیوں میں یہ سرد علاقوں جیسے کہ کاغان، ناران، بٹہ کنڈی اور قبائل کے سرد علاقوں کی طرف وغیرہ جاتے ہیں۔

پہلے انکا شیڈیول گرمیوں میں یہ ہوا کرتا تھا کہ اس میں چار مہینے بالائی علاقوں میں رہتے تھے جبکہ چار ماہ میدانی یعنی گرم علاقوں میں رہتے تھے۔ اسی طرح دو مہینے انکے جانے اور دو مہینے انکے آنے کے ہوتے تھے،  یہ انکا پیدل سفر ہوتا تھا۔  اب جبکہ موسمیاتی تغیر کا اثر ان پر پڑا ہے انکی دو وجوہات ہیں جیسا کہ شمالی علاقہ جات میں یہ جب جاتے ہیں تو وہاں پر اکثر آلو، شلجم وغیرہ کی فصل اگتی ہیں تو وہاں پر گھاس کا مسئلہ انکو درپیش آتا ہے۔

تو آج کے دور میں اس میں چند بکروال تو گاڑیوں میں اپنے ساتھ گھاس لے کر جاتے ہیں لیکن زیادہ تر تو انکی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ دوسرا یہ بھی ہے کہ جب یہ لوگ بالائی علاقوں میں جاتے ہیں تو وہاں شیڈول سے پہلے درجہ حرارت میں تبدیلی آجاتی ہیں اور یہ سب کلائمیٹ چینج کی وجوہات ہیں۔

برسات کے موسم میں گرمی کی شدت زیادہ رہتی ہے تو وہاں پر گلیئشرز پگھل جاتے ہیں اور ساتھ میں بارشیں ہوتی ہیں تو سیلاب کی شکل میں بھی انکو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور انکے ساتھ ساتھ انکے مال ویشی کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

 

"موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بکروال کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو ان سے ملک کی معیشت پر کیا اثرات رونما ہوتے ہیں”

 

ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا تھا کہ بکروال یا کوچیان ملک کے وول انڈسٹری کو فائدہ دے رہے ہیں۔ یہ گوشت انڈسٹری اور اسی طرح چمڑے اور دودھ کی انڈسٹریز میں کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ اب جب دیکھا جائے تو موسمیاتی تغیر کی وجہ سے کوچیان کی سرگرمیوں پر جو اثر پڑا ہے تو اب یہ ان مقدار میں یہ میٹریل مہیا نہیں کر رہے جو آج سے 20 یا 30 سال پہلے دے رہے تھے۔ اس میں بہت ساری کمی آئی ہے۔ کیونکہ انڈسٹریز کو میٹریل جو نہیں ملتا تو ظاہر ہے کہ بے روزگاری بھی آتی ہے اور ساتھ میں مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور اس پر کافی اثر بھی پڑتا ہے۔ چھوٹا گوشت بھی مہنگا ہو گا اور ساتھ میں چمڑے کے قیمت پر بھی اثر پڑے گا یعنی مہنگا ہو گا اور اس کے مہنگا ہونے کی وجہ سے چمڑا جن چیزوں میں استعمال ہو رہا ہے وہ بھی مہگے ہو جائنگے۔

اسی طرح جو چراگاہوں میں گھاس اس رفتار سے نہیں اگتی جو پہلے اگتی تھی۔ تو چارے کی کمی کی وجہ سے بھی انکی قیمت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیونکہ یہ چراگاہے اب خشک زمینوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ تو ایسے حالات میں بکروال اپنی بھیڑ بکریوں کے لیے چارہ دوسرے زمینداروں کے پیسوں پر لینگے تو ان پر خرچہ آئے گا اور پھر ضرور بھیڑ بکریوں کے قیمت پر اثر پڑے گا۔

"موسمیاتی تغیر کا بایئو ڈائیورسٹی یا حیاتیاتی تنوع پر اثرات”

اس حوالے سے ڈاکٹر محمد نفیس نے ٹی این این کو بتایا کہ حیاتیاتی تنوع جو کہ بہت سارے حشرات، جانور، پرندوں اور پودوں کو کہتے ہیں۔ پھر اس طرح ہر ایک جانور یا پرندے کی ایک خاص ڈیوٹی دی گئی ہے کہ وہ سر انجام دے سکے۔ کلائمئٹ چینج کی وجہ سے انکی تعداد میں کمی آجاتی ہے اور خاص قسم کے جو حشرات یا جانور ہے وہ ان علاقوں سے نکل جاتے ہیں۔ جہاں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ تو یہ بائیو ڈاییورسٹی پر انکے منفی اثرات ہے۔ ڈاکٹر نفیس کہتے ہیں کہ چڑیا کی تعداد میں کمی نظر آرہی ہے اسکی وجہ بھی موسمیاتی تبدیلی ہے کیونکہ درجہ حرارت کے بڑھنے سے چڑیا کے انڈوں کی ہیچنگ نہیں ہوتی تو اسکی وجہ سے انکے بچے پیدا نہیں ہوتے۔ اب اگر دیکھا جائے کہ جانوروں، پرندوں یا پودوں کی نشونما یا انکی افزائشی نسل میں خلل پیدا ہو جائے چاہیے وہ کلائمئٹ چینج کی وجہ سے ہو یا انسانوں کی وجہ سے تو بائیو ڈئیورسٹی پر اسکا بڑا اثر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر نفیس کے مطابق بکروال یا کوچیان بھی موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں اور انکا یہ اثرنداز ہونا معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔  حکومتی سطح پر اور عام لوگوں کو اس اہم موضوع سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ بکروال تعویز گل کی طرح بہت سارے کوچیان موسمیاتی تغیر سے آشنا ہو جائے اور انکے لیے متبادل اقدامات کریں۔

 

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button