خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں برف کی غیرقانونی کٹائی اور تجارت صوبے کے ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ
کیف آفریدی
پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور خاص کر خیبرپختونخوا میں موجود قدرت کے کرشموں کی وجہ سے ایک جنت کا نظارا لگتا ہے۔
دنیا کے قطبی خطوں جیسے انٹارک ٹیکا کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک میں سب سے زیادہ 7000 معلوم گلیشئرز پاکستان موجود ہیں جس میں 3 ہزار خیبرپختونخوا میں ہیں۔ دنیا کے تین دیو قامد پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش پاکستان میں ملتے ہیں۔
وفاقی کلائمیٹ چینج منسٹری کی معلومات کے مطابق اور انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ، (ائی سی آئی ایم ڈی) جو ایک علاقائی بین الحکومتی ادارہ ہے۔ جو ہندو کش اور ہمالیہ خطے کے آٹھ علاقائی رکن ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، بھارت، میانمار، نیپال اور پاکستان کے لئے خدمات انجام دیتا ہے، کی 2023 رپورٹ کے مطابق ہندو کش اور ہمالیہ کے گلیشرز اس صدی کے آخر تک بڑھتیے ہوئے درجہ حرارت کی بدولت 80 فیصد تک کم ہو سکتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے شمالی علاقوں میں چترال، اپر دیر، شانگلہ، کاغان، ناران اور دیگر علاقوں میں جہاں پر گلیشئرز موجود ہیں، وہاں گلیشئرز کی غیرقانونی کٹائی اور تجارتی استخراج( بیچنا) نے صوبے کی ماحولیاتی اور آب و ہوا کی مستحکم کے لیے ایک بڑے خطرے کا سامنا بنا ہوا ہے۔ جو کہ خیبرپختونخوا کے ماحولیاتی حفاظتی قوانین اور ضوابط کے خلاف ہیں۔
چترال کے دروش علاقے سے تعلق رکھنے والے 46 سالہ گلبدین کا کہنا ہے کہ ہم صبح سویرے گلیشئرز برف لواری ٹاپ سے لاتے ہیں اور یہاں مختلف علاقوں دیر، تیمرگرہ اور چترال میں دکانداروں پر بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ برف لانا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ صبح سویرے جانا اور وہاں پر کلہاڑیوں کی مدد سے اسکو کاٹتے ہیں۔ اس کے بعد گاڑیوں میں لوڈ کرکے ان متعقلہ علاقوں کو بیچتے ہیں۔ یہ برف عام برف سے مختلف ہوتی ہیں اور یہ قیمت میں بھی سستی ہیں۔ اسکو ہم صاف کرکے بیجتے ہیں۔ اتنا منافع نہیں ہوتا لیکن کیا کریں مہنگائی کے اس دور میں کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے شمالی علاقہ جات کی طرح قبائلی ضلع کرم میں بھی گلیشئرز پائے جاتے ہیں۔ کلائمئٹ چینچ ایکسپرٹ اور مقامی صحافی عدنان حیدر کا کہنا ہے کہ عموما ضلع کرم میں نومبر کی مہینے سے برف باری شروع ہوتی تھی لیکن گزشتہ چند سالوں سے برف باری کے دورانیہ میں تضاد آیا ہے۔ نومبر سے فروری تک برف باری اب دسمبر میں شروع ہو کر مارچ جبکہ کبھی کبھی اپریل تک برفباری ہوتی ہیں۔
عدنان حیدر کا کہنا ہے کہ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی یہاں کے لوگ پھر پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور یہ برف گدھوں، خچروں اور گاڑوں پر لاکر اپنی ضرویات میں لاتے ہیں اور پاڑا چنار کے مختلف علاقوں میں یہ برف بیچتے ہیں۔ گلیشرز کا ذکر کرتے ہوئے عدنان حیدر کا کہنا تھا کہ گلیشئرز سے یہ پانی چشموں اور ندیوں کی شکل میں نیچے آتا ہے جسے لوگ زرعی زمیں سیراب کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس پانی کی برکت سے جو پھل اور سبزیاں اگتی ہے تو صحت کے لیے بہت مفید ہوتی ہیں۔ چقندر نامی پھل جو کہ پورے پاکستان میں کرم کا مشہور ہے، وہ یہی پانی کی وجہ ہے۔
پہاڑوں سے برف لانے کے حوالے سے ماہر قانون اور کلائمئنٹ چینچ ایکسپرٹ طارق افغان کہتے ہیں کہ پہلے ہم لوگ اس مسئلے کو اتنا اہم نہیں لیتے تھے لیکن جب ہمیں ماحولیات کے تحفظ کی آگاہی بڑھتی گئی، پورہ خطہ موسمیاتی تغیر کا شکار ہوتا گیا تو اس حوالے سے ہنگامی اقدامات اٹھانے اور اس مسئلے کو اجاگر کرنے پر ہم نے کام شروع کیا۔
دنیا میں اس اہم مسئلے پر ایکشن لینا شروع ہوا ہے۔ پیرس ایگرمئنٹ ہوا اور 1997 میں پاکستان میں انوارمنٹل پروٹیکشن ایکٹ بنا جبکہ سال 2014 میں خیبرپختونخوا میں انوارمنٹل پروٹیکشن ایکٹ بھی بن گیا۔
قانون دان طارق افغان کہتے ہیں کہ میں نے اس اہم مسئلے پر ڈائرکٹر جنرل انوارمنٹل پروٹیکشن ایجنسی خیبرپختونخوا کو شکایت جمع کی ہے۔ لیکن ڈیڑھ مہنہ گزرنے کے باجود اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس اہم مسئلے پر ڈان نیوز پیپر پر ایک آرٹیکل بھی لکھا ہے جسے بہت پیزرائی ملی اور بہت جلد میں پشاور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے رٹ دائر کرونگا۔ کیونکہ اس اہم مسئلے پر حکومت کی طرف سے کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی جو کہ قابل افسوس ہیں۔
طارق افغان نے بتایا کہ پاکستان ماحولیاتی بحران کی ذد میں ہے، حکومت نے پالیساں اور قوانین بنائے تو ہیں لیکن عمل درامد کب ہوگا، حکومت خاموش تماشائی ہے، افغان نے کہا کہ پاکستان عالمی معاہدوں اور خاص کر پائیدار ترقی کے اہداف ایس ڈی جیز میں گول 13 کلائمیٹ ایکشن کے اہداف مکمل کرنے میں ناکام ہے۔ سیزنل برف اور گلیشرز کو تحفظ دینے کے حوالے واضح قوانین کا نا ہونا تعجب کی بات ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ماحولیاتی تبدیلی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائرکٹر افسران خان کا کہنا ہے۔ ماحول کے لئے گلیشئرز بہت اہم ہے اور یہ نہروں اور دریاں کے لیے فیڈرز ہیں۔ تاہم ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ گلیشئرز اور سنو یعنی برف میں فرق ہوتا ہے۔ جب برف باری ہو جاتی ہے اور سال سے زیادہ عرصہ اس پر گزر جاتا ہے تو یہ سنو فال گلیشئرز میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ کافی سخت ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت زیاہ ہو یا کم لیکن گلیشرز سے پانی ٹھپکے گا۔ جتنے زیادہ گلیشئرز ہونگے اتنا زیادہ ماحول ٹھنڈا رہے گا اور اس کے بہت سے فوائد ہیں۔
افسرخان کہتے ہیں کہ گلیشئرز سے کوئی برف نہیں لا سکتا کیونکہ یہ تقریبا 3 ہزار فٹ کی اونچائی پر ہوتے ہیں اور یہ بہت سخت ہوتے ہیں یعنی اس میں پتھر اور ریت وغیرہ کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں جو کہ ہزاروں سال سے بنے ہوتے ہیں۔
جبکہ سیزنل سنو کی عمر ایک سال تک ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک سال کے اندر خود پھگل جاتی ہے۔
غیر قانونی طور پر گلیشئرز لانے کے حوالے سے ڈپٹی ڈائرکٹر کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا انورامنٹل پروٹکشن ایکٹ 2014 سیکشن چھ میں کہا گیا ہے کہ اگر گلیشئرز کو زیادہ مقدار میں غیرقانونی طریقے سے کوئی لائے تو اس پر کاروائی ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ اس سے بائیو ڈاورسٹی یعنی وہاں پر جو جانور ہے جو کہ ٹھنڈے ماحول میں انکی زندگی ہوتی ہے وہ متاثر ہو سکتے ہے اور ساتھ میں ماحولیاتی تبدیلی کا بھی باعث بنتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پیشل (آئی پی سی سی) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے بیشتر شہر اور آبادیاں شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی تحفظ اور مالی نقصانات سے بچاؤ کے لیے ایسی تعمیرات کو فروغ دینی ہو گی جو ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ہوں۔