عوام کی آوازماحولیات

موسمیاتی تبدیلی: ‘غذائی قلت کے ساتھ نقل مکانی کے خدشات بھی پیدا ہوسکتے ہیں’

آفتاب مہمند

موسمیاتی تبدیلی یا تغیرات کا تعلق دن، ہفتہ، مہینہ یا سال سے نہیں بلکہ موسمی تغیر کا تعارف یہ ہے کہ دنیا بھر کی سطح پر جب اوسط موسم تبدیل ہوتا ہے اس کو گلوبل کلائمیٹ چینج کہا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اوسط موسموں میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن یہاں موجودہ گلوبل وارمنگ یا کلائمیٹ چینج کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماہر موسمیات اور سابق چیف میٹرولوجسٹ مشتاق علی شاہ کے مطابق گزشتہ سو سال کے دوران جہاں درجہ حرارت میں ایک فیصد فرق آیا ہے اسی کو موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ پہلے 70 سال میں درجہ حرارت میں اعشاریہ 4 کا فرق آیا تھا لیکن باقی تیس سال میں اعشاریہ 6 درجہ حرارت کا فرق آیا ہے اس کا مطلب کہ مختلف وجوہات کی بنا پر درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔

عالمی سطح پر درجہ حرارت میں فرق آنے یعنی موسمیاتی تبدیلی کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں جن میں تیل اور ایندھن کا کثیر استعمال، گاڑیوں، فیکٹریز اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں اور دوسری بقایاجات، نیوکلیئر پلانٹس سے نکلنے والے تابکار مادے، جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے عوامل سر فہرست ہیں۔

عالمی ماہرین کے مطابق ان وجوہات میں سے تیل اور ایندھن کا کردار سب سے بڑھ کر ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس کے کئی اثرات اب سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں جیسے سطح سمندر کا بلند ہونا، بے ترتیب بارشیں اور برف باری، فصلوں کی پیداوار میں کمی، سیلاب اور طوفان، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ، پانی کی قلت، جانوروں اور انسانوں کی صحت پر اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ اسی حوالے سے مشتاق علی شاہ کہتے ہیں کہ کراچی میں حالیہ سمندری طوفان بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کراچی میں تقریبا 40 سال بعد اسی طرح کا طوفان آیا ہے۔

مشتاق علی شاہ کے مطابق جب درجہ حرارت میں فرق آنا شروع ہوا تو بارشوں، سیلابوں اور ہواؤں کا پیٹرن بھی تبدیل ہو گیا۔ کئی سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ بے ترتیب ہوائیں چلتی ہیں اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے، خطرناک طوفان آتے ہیں، حتیٰ کہ سیلاب نکل آتے ہیں۔ جس کو "Intensity of occurring” کہا جاتا ہے۔ عالمی دنیا کو گلوبل وارمنگ کے باعث جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہاں کچھ عالمی سطح کی مثالیں دینا ضروری ہیں، کرسچین ایڈ نامی فلاحی ادارے کی شائع کردہ تحقیق میں ایسے 10 شدید واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے نتیجے میں ہر ایک واقعے میں 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ان واقعات میں امریکہ کے شہر ہریکین آئڈا اور اس کے بعد یورپ میں آنے والے سیلاب بھی شامل ہیں۔

کئی غریب خطوں میں آنے والے سیلابوں اور طوفانوں کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوئی اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین کی جانب سے دنیا اور انسانوں کو درپیش خطرات کی سخت ترین وارننگ دیتے ہوئے موسمیاتی اثرات کی جو رپورٹ جاری کی گئی تھی اسے ‘انسانی مصائب کی اٹلس’ قرار دیا گیا تھا۔

عالمی سطح کے ایک سرکردہ محقق ڈاکٹر فریڈرک اوٹو نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ اب دنیا میں آنے والی گرمی کی ہر لہر انسانی سرگرمیوں سے پیدا کردہ کلائمیٹ چینج کے سبب ‘زیادہ متواتر اور زیادہ شدید’ ہو گئی ہے۔

ایسے میں 29 مئی 2023 کو دیکھا گیا کہ چین کے شہر شنگھائی میں اتنی زیادہ گرمی پڑی کہ اس نے 100 سالوں میں مئی کے سب سے گرم دن کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ اسی طرح دنیا کے تمام تر ممالک و ریجنز میں ایسی ہی کئی مثالیں موجود ہیں۔

اب ایسے میں عالمی ادارے ان تبدیلیوں کو کنٹرول میں لانے کیلئے کیا اقدامات کر رہے ہیں اس پر ایک الگ مضمون لکھا جا سکتا ہے تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سنہ 1992 سے اب تک ہر سال دنیا بھر کے مختلف فریق اسی سلسلے میں مذاکرات کیلئے ایک کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ باہمی رضامندی کے ساتھ ایک قابل عمل منصوبہ تشکیل دیا جاسکے۔

اسی طرح سال 2015 میں گلوبل وارمنگ کے حوالے سے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ‘سی او پی 21’ کے نام سے ایک عالمی سطح کے ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا جہاں 190 کے لگ بھگ ممالک کے سربراہان سمیت 30 ہزار سے زائد افراد نے کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ عالمی سطح پر یا انفرادی طور پر ایسی کئی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔

بات کرتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی تو گزشتہ سال پاکستان میں جولائی اور اگست کے دوران جو سیلاب آیا تھا یقینا اس کے نقصانات سے تو پوری قوم بخوبی واقف ہے۔ لہذا زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ انہی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں کے باعث ملک بھر میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق اور ملک بھر میں مجموعی طور پر 33 ملین لوگ متاثر ہوئے اسی طرح مختلف آبادیاں، فصلیں، سبزیاں، باغات و دیگر کئی انفراسٹرکچرز متاثر ہونے کے باعث مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہو چکے تھے۔

سابق چیف میٹرولوجسٹ مشتاق علی شاہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال سیلابوں کے باعث زیادہ نقصان اس لیے ہوا کہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی وہ انتظامات نہیں جس کے باعث اتنی بڑی آفت کو کنٹرول کیا جاسکے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ارلی وارننگ سسٹم بھی مضبوط ہے ہمارے ہاں گزشتہ سال دیکھا گیا کہ سیلاب آنے سے پہلے ایسا کوئی مربوط نظام نہیں تھا۔ جو بڑی بات ہے ہمارے ہاں پانی کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔ پانی کے جو پرانے راستے تھے اب وہ نہیں رہے۔ سوات کالام کی مثال دیتے ہوئے مشتاق علی شاہ کہتے ہیں کہ وہاں دریا کے کنارے لوگ آباد ہوئے ہیں، ہوٹل بنائے گئے جبکہ ان کی حفاظت کیلئے کوئی انتظام موجود نہ تھا۔

میدانی علاقوں میں بھی ضلع نوشہرہ میں دریائے کابل اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دریائے سندھ پر باندھے گئے بند کے انتظامات ہوتے تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ پانی کے راستوں میں کہیں لوگ آباد ہوئے، کہیں پر غیر ضروری دیگر تعمیرات ہوئی ہیں جس کے باعث مخصوص راستے نہ ہونے کی وجہ سے پانی براہ راست آبادیوں کو ہٹ کرتا ہے اور نقصان ہو تا ہے۔ اسی طرح سندھ، بلوچستان یا ملک کے دیگر حصوں کا بھی یہ حال ہے کہ پانی کے اب پرانے راستے نہیں رہے۔

ملک میں ایسا نظام کہیں نہیں کہ بارش کا پانی جگہ جگہ روک کر اس کو جمع کیا جائے جو کہ ممکن ہے۔ پانی کو جمع کرنے سے اگر ایک طرف نقصانات میں کمی لائی جا سکتی ہے تو دوسری طرف پانی کا سطح بھی واپس اوپر آ سکتی ہے۔ بارش کے پانی جمع کرنے سے ملک کا زرعی نظام بڑھانا، بارانی ڈیم بنانا جیسے مثبت اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔

شہری علاقوں میں اگر دیکھا جائے تو بارش ہونے یا سیلاب کی صورت میں وہاں کی نالیوں کا جو ” rechargeable system” ہے وہ تو ہے ہی نہیں یا اتنا کمزور ہے کہ پانی داخل ہوتے ہی نقصانات شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ سال خصوصا اندرون شہر میں دیکھا گیا۔ جاپان جیسے ملک میں بارش کا پانی جمع کرنے کیلئے وہاں کے گھروں کے تہہ خانوں میں باقاعدہ ٹینکی بنائی جاتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

مشاق علی شاہ کہتے ہیں جب ملک بھر میں خصوصا پہاڑی سلسلوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی تو گلوبل وارمنگ کے اثرات تو آنے ہی تھے۔ مثال کے طور پر ضلع چترال میں جب بارشیں ہوتی ہے تو پانی تیزی سے بہہ کر آبادی کو ہٹ کرتا ہے جبکہ جنگلات کے باعث پانی رک رک کر آہستہ بہہ کر نیچے آتا تھا۔ دوسری طرف جب ہمارے ملک میں زرعی نظام کمزور ہوا، زرعی زمینوں پر یا تو غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں، کاروباری مراکز، کارخانے یا کوئی بھی غیر ضروری تعمیرات جہاں پودوں کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے تو وہیں گھاس جسے گرینری بھی کہا جاتا ہے ختم ہو رہی ہے۔

ایسے میں پانی جذب نہیں ہوتا اور تیز بہاو کی وجہ سے فوری نقصانات ہو جاتے ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے باعث صرف موسم، ماحول یا زراعت متاثر نہیں ہوئے بلکہ یہاں پر بعض بیماریوں یا وبا نے بھی جنم لیا ہے۔ دمہ جیسے بیماری میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح چند سالوں سے ڈینگی جیسی وباء پھیل گئی ہے جبکہ فصلوں یا باغات کو بعض اوقات اچانک خطرناک مرض لگ جاتے ہیں۔

گرین ہاوس جس کا موسم کے حوالے سے ایک اہم کردار ہوتا ہے وہ بھی شدید متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ گرین ہاوس ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو لوگوں کو موسمی حالات جیسے درجہ حرارت اور نمی کو کنٹرول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ گرین ہاؤسز کے بہت سے مختلف ڈیزائن ہیں۔ تاہم عام طور پر ان عمارتوں میں سورج کی روشنی اور حرارت کو پکڑنے کے لیے شفاف مواد کے بڑے حصے شامل ہوتے ہیں۔

صنعتوں کے فروغ سے دنیا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے جس کے اثرات ہم پر بھی پڑ رہے ہیں۔

مشتاق علی شاہ کے مطابق فضا اتنی گندی ہو چکی ہے کہ ہوا میں نمی، جسے ” moisture” کہا جاتا ہے، بھی متاثر ہے بعض اوقات اچانک سردی میں انسان کو گرمی آنا شروع ہوتی ہے اور بعض وقت گرمی میں اچانک تھوڑی دیر کیلئے سردی کی وجہ بے موسمی صورتحال ہی کا ہے۔ دیکھا جائے ایک تو ہمارے ہاں صفائی کا نظام بھی ناقص ہے۔ دنیا بھر میں تو صرف اگر گیس کی بات کی جائے تو 12 سے 13 مختلف اقسام کے گیسز کا استعمال کرکے اخراج کیا جاتا ہے جس کے باعث "atmosphere” کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے جس کے براہ راست اثرات کا تعلق اسی گلوبل وارمنگ ہی سے ہے۔

مشتاق علی شاہ کہتے ہیں کہ اب جہاں دنیا بھر کو گلوبل وارمنگ کا سامنا ہے تو ایسے میں ہمارے ملک میں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے، زرعی شعبہ کو بڑھانے حتیٰ کہ تخموں کو بدلنا، توانائی جیسے شعبہ میں بڑی اصلاحات جیسا کہ یہ شعبہ پہلے ہی سے متاثرہ ہے، جنگلات کی کٹائی کی روک تھام، آبادیوں کے سٹرکچر کو بدلنا جیسے بڑے بڑے اقدامات لینے ہون گے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر خیبر پختونخوا انروائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی افسر خان کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی متاثر ہوا ہے جہاں خیبر پختونخوا کی اہمیت کا تعلق ہے تو دنیا بھر میں ایکو سسٹم کے 11 رشتوں میں سے 9 رشتے صوبہ خیبر پختونخوا میں پائے جارہے ہیں۔ مثلا فارسٹ، دریا، زراعت، پہاڑی، لائیو سٹاک، گلیشئرز وغیرہ، صرف سمندر ہے جو ہمارے صوبے کے اطراف میں نہیں۔ اب جہاں گلوبل وارمنگ سے پورا ملک متاثر ہو چکا ہے تو ایسے میں خیبر پختونخوا کے سسٹم پر بھی منفی اثرات پڑ چکے ہیں۔

افسر خان بتاتے ہیں کہ حالیہ ایک آرٹیکل کے مطابق خیبر پختونخوا میں گندم کی پیداوار متاثر ہوتی جارہی ہے۔ صوبے میں 2040 تک گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی جس کی بڑی وجہ بے موسم بارشیں ہیں۔ گندم کا دانہ جب پک جاتا ہے تو انہی دنوں بارشوں کا ایک بے موسمی سلسلہ شروع ہو کر گندم کا دانہ خراب کر دیتا ہے جس کے باعث گندم کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

ایکو سسٹم متاثر ہونے کا ایک فائدہ بھی آرہا ہے وہ یہ کہ جس فصل کی پیداوار میں کمی آرہی ہے تو اس کی جگہ دوسرا کوئی فصل کو اگایا جائے۔ مثلا گندم کی جگہ سرسوں کی کاشت کثرت سے کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کوئی فصل یا سبزی نہیں اگ سکتی تو متبادل ذرائع تلاش کرکے ان کو کاشت کیا جائے۔ گلوبل وارمنگ کے باعث جو فصلوں کی پیداوار کا پیٹرن ہے وہ بھی تبدیل ہونا چاہئے۔

افسر خان کہتے ہیں کہ اگر لائیو سٹاک کی مثال لی جائے تو وہ بھی متاثر ہو رہی ہے جیساکہ شدید گرمیوں میں جانوروں کی افزائش نسل میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ جانور تنگ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دودھ کی پیداوار میں بھی کمی آجاتی ہے کیونکہ گرمیوں میں بار بار جانوروں کو پانی پلانا پڑتا ہے۔ کم مقدار میں پانی پلانے کی صورت میں دودھ کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔

افسر خان کہتے ہیں کہ سال 2017 میں خیبر پختونخوا حکومت نے کلائمیٹ چینج پالیسی کا ایکشن پلان منظور کیا تھا جس میں زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف قانون سازی، فصلوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے کیلئے رسک منیجمنٹ سسٹم متعارف کرانا، کلائمیٹ چینچ یونٹ کا قیام، شعبہ زراعت پر ٹیکس کم کرنا، شعبہ زراعت، فشریز، لائیو سٹاک میں اصلاحات، گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں کمی لانا، موسمیاتی تبدیلی سے ممکنہ نقصانات کی پیش گوئی، کلائمیٹ ماڈل بنانا، مال مویشی کیلئے بہتر خوراک، جنگلات کی حفاظت، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا قیام، بڑے کمرشل، پبلک عمارتوں میں سولر واٹر ہیٹر کی تنصیب اور ہیچریز، فش فارمز میں بہتری، بارش کا پانی محفوظ کرنا اور پانی کم استعمال کرنا جیسے اقدامات پالیسی کا حصہ ہیں۔ مزکورہ گائیڈ لائنز فارسٹ، فشریز، ٹرانسپورٹ سمیت تمام متعلقہ اداروں کیلئے تھیں۔

پالیسی کو اپنانے کے 199 طریقے ہیں لیکن اس کو قانون کے آگے لانے کے لئے 147 طریقے ہیں۔ ایک سٹریٹیجی پر ایک ہی پراجیکٹ ڈیزائن کیا جاسکتا ہے۔ اس میں جو اہم بات ہے کہ مذکورہ پالیسی کا دائرہ کار سابق فاٹا یعنی ضم شدہ اضلاع تک بھی پھیلا دیا گیا ہے۔ ان گائیڈ لائنز میں صوبائی حکومت نے کئی اقدامات بھی لئے ہیں جیسا گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں کمی لانے کیلئے بی آر ٹی پراجیکٹ ایک بہترین منصوبہ ہے۔ اسی طرح شمالی علاقوں میں مختلف اقسام کے جانوروں کو بچانے یا افزائش نسل بڑھانے کیلئے کئی منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔

صوبے میں کئی بارانی ڈیمز بنانے سے توانائی کی پیداوار، پانی بچت سمیت کئی فوائد مل رہے ہیں تاہم کلائمیٹ چینج 2017 کی پوری پالیسی اگر نافذالعمل ہو جائے تو گلوبل وارمنگ سے بچنے کیلئے نہ صرف ملک بھر میں بلکہ دنیا کیلئے یہ ایک تاریخ ساز پالیسی ثابت ہوگی۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button