سٹیزن جرنلزمفیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

”40 سال سے دیگر خواتین کے ہمراہ سر پر پانی لاتی ہوں”

سٹیزن جرنلسٹ شمائلہ آفریدی

پانی ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں، پانی جاندار کی زندگی اور اس کی بقاء کے لئے ایک لازمی جز ہے، پانی قدرت کی سب سے بڑی نعمت اور زندگی کا انجن ہے، لیکن قوم اشوخیل سمیت خیبر پختونخوا ہی نہیں ملک بھر کے جانے کتنے علاقے آج بھی اس نعمت اور اس انجن سے محروم ہیں۔

اشوخیل سب ڈویژن پشاور کے نسبتاً وسطی علاقے میں واقع ایک قوم ہے، اور شہر پشاور سے 40 کلومیٹر جنوب مشرق کی طرف آباد ہے، اشوخیل قوم 7 ”کندی” (گوٹھ، دیہات یا گاؤں) پر مشتمل ایک بڑا علاقہ ہے جن میں کندی علی خیل، امیر خیل، عبداللہ خیل، روخان خیل، محبت خیل سمبی خیل، مراد خیل اور پخی فریدی شامل ہیں اور یہ علاقہ آبادی کے لحاظ سے تقریباً 20 تا 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

آشوخیل کو اگر ایف آر پشاور کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ کہا جائے تو غلط  نہ ہو گا کیونکہ یہاں محرومیوں اور بدانتظامی کی ایک طویل داستان ہے جس میں کوئی بہتری نہیں آ رہی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

آشوخیل قوم کو زندگی کی ہر طرح کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے، یہ علاقہ روز اول سے ہی تعلیم، صحت، بجلی وغیرہ جیسے بنیادی مساٸل سے دوچار ہے، لیکن قوم اشوخیل کا اہم اور بنیادی مسئلہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے، 70 فیصد علاقہ پینے کے صاف پانی سے بالکل محروم ہے۔ قوم آشوخیل کے 7 میں سے تقریباً 4 کندی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جن میں پخی فریدی، مراد خیل، اور سمبی خیل اور محبت خیل شامل ہیں، ان میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پخی بالا ہے۔

 

پخی دو شاخوں پر مشتمل ہے، پخی زیریں اور پخی بالا۔ پخی بالا میں پانچ خیل ہیں جبکہ پخی زیریں میں دو، پخی زیریں پخی بالا کے بیچ پہاڑ واقع ہے، دونوں شاخوں کے بیچ تقریباً 40 منٹ کا فاصلہ ہے۔ بدقسمتی سے 73 سالہ پاکستانی تاریخ میں اس علاقہ میں پانی کے مسئلے کو آج تک حل نہیں کیا جا سکا ہے۔

پخی بالا سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ خاتون کہتی ہیں کہ ان کو درپیش مساٸل میں سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ پینے کے پانی کی عدم دستیابی ہے، پانی نہ ہونے کی وجہ سے گاٶں کی خواتین ایک گھنٹہ کی مسافت کی دوری پر دوسرے گاوں پیدل چل کر اپنے سروں اور بار برداری کے جانوروں کے ذریعے پانی لانے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے انہیں سرد و گرم موسموں میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ”حکومتی ادارے اور قومی مشران کا مسئلے کے حل کیلئے غیرسنجیدہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔”

انھوں نے حکومتی اداروں اور قومی مشران سے مطالبہ کیا اور امید ظاہر کی کہ گاؤں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے، گاؤں والوں کو پانی کی سپلائی ممکن ہو سکے گی اور خواتین کو اس اذیت اور دیرینہ مسئلے سے نجات ملے گی۔

پخی بالا مالو خیل سے تعلق رکھنے والی 60 سالہ خاتون کہتی ہے کہ ان کی عمر 60 سال کی ہو چکی چالیس سال سے وہ اور پخی بالا کی دیگر خواتین دور دراز علاقوں سے سر پر پانی لاتی ہیں، چالیس سالوں میں ابھی تک ان  کے گاوں کیلئے  پانی کی فراہمی کا ایسا منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے جس سے ان کو اس سنگین مسئلہ سے چھٹکارا مل سکے۔

''40 سال سے دیگر خواتین کے ہمراہ سر پر پانی لاتی ہوں''

ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں جب پانی کی سطح کم پڑ جاتی تھی تو گاٶں کی تمام خواتین اکٹھی ہو کر رات کے دو تین  بجے پہاڑوں کے دامن میں گھنٹے ڈیڈھ کی مسافت پر موجود آبی ذخیرے سے پانی بھر کر لاتی تھیں جو کافی کھٹن مرحلہ ہوتا تھا لیکن گاؤں کی بہادر خواتین اپنا فرض بخوبی پورا کرتی تھیں اور کبھی اپنے فریضے سے پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا دور بہت اچھا تھا، پیار محبت بھائی چارہ تھا، گاؤں میں کوئی ڈر خوف نہیں تھا، بے خوف و خطر گاٶں کی خواتین رات کو بھی پانی بھر لایا کرتی تھیں لیکن اب اس (نام نہاد) ترقی یافتہ دور میں بھی ان یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے، ”اب گاؤں کے بااثر لوگوں نے اپنے گھروں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ٹینکیاں بنا دی ہیں جن میں بارش کا پانی ذخیرہ کر کے استمعال کیا جاتا ہے جس سے ان کو دو تین مہینے تک دوردراز علاقوں سے پانی نہیں لانا پڑتا لیکن جب بارش نہیں ہوتی تو پھر سے ان کو اس اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”

انھوں نے بتایا کہ گاؤں میں آباد غریب خاندان معاشی تنگی اور مہنگائی کی وجہ سے گھروں میں ٹینکیاں تعمیر کرنے سے قاصر ہیں، بعض لوگوں نے کنویں بھی کھودے ہیں لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کنوٶں سے پانی نکالنا ممکن نہیں۔

وہ اپنے قوم کے مشران اور حکومتی اداروں سے گلہ شکوہ کرتی ہیں کہ قومی مشران نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی ہے، اس مسئلے میں حکومت کے ساتھ ساتھ قومی مشران بھی ذمدار ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مسلے کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ موجودہ دور میں نئی نسل کیلئے آسانیاں پیدا ہوں اور انہیں دوردراز علاقوں سے پانی لانے کیلئے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔

 

پخی بالا سے تعلق رکھنے والا سعد آفریدی نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں پانی کے بحران پر حکومت نے مناسب توجہ نہیں دی ہے اور نہ مستقبل میں آبنوشی کے حوالے سے کسی جامع پالیسی کی تشکیل کے آثار نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی ان بنیادی مسأٸل کےحوالے سے منصوبہ بندی یا سالانہ مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود ہے۔

سعد آفریدی نے بتایا کہ پخی بالا میں 5 ٹیوب ویلز ہیں جن میں دو ٹیوب ویلز اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں والوں نے کھدوائے ہیں، ان میں پانی بھی موجود ہے جو پورے پخی بالا کیلئے ناکافی ہے جبکہ 3 ٹیوب ویلز میں پانی موجود نہیں ہے۔ ”بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گاوں کو پانی سپلائی نہیں کیا جا سکتا جس کے لئے سولر پلانٹ کی ضرورت ہے جو گاٶں کے رہاٸشی خریدنے سے قاصر ہیں۔”

انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت  کو مزید کنویں کھدوئے، جن کنووں پر کام کرنا باقی ہے ان پر کام مکمل کر کے سولر پلانٹس مہیا کیے جاٸیں تاکہ گاٶں والوں کو پینے کے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔

پخی بالا کے رہاٸیشیوں کے مطابق  پانی کی فراہمی کا ایک اہم زریعہ پخی زیریں میں پہاڑوں میں بہتا ہوا پخی نیکہ کا چشمہ ہے۔ 1998 کے بعد سے پخی نیکہ چشمہ سے پخی بالا کیلئے پانی کی ترسیل کو ممکن بنانے کیلئے مختلف ادوار میں ایک کروڑ تک کا فنڈ جاری کیا جا چکا ہے، اس فنڈ کے ذریعے چشمے سے پخی بالا تک پاٸپ لاٸین کی تنصیب اور سپلائی ممکن بنانے کیلئے جدید مشینری بھی خریدی  گئی تھی لیکن پخی زیریں اور پخی بالا کے مابین پانی کی تقسیم پر تنازعہ پیدا ہو گیا جس نے باقاعدہ مسلح لڑائی کی شکل اختیار کر لی تھی (کیونکہ) پخی زیریں کے لوگ پخی بالا کو پانی دینے کیلئے تیار نہیں تھے، کئی عرصہ تک پخی چنہ پر دونوں پخی شاخوں کے مابین تنازعہ برقرار رہا جسے جرگے کے ذریعے مسلسل کوششوں کے بعد حل کر لیا گیا تھا۔

2006_2007 میں شروع ہونے والی عسکریت پسندی کی لہر کی وجہ سے ایک دفعہ پھر یہ تنازعہ سنگین صورت اختیار کر گیا۔ دوسری طرف بدامنی اور غیرقینی صورتحال کی وجہ سے پانی کی ترسیل کے لیے لگائی گئے تمام آلات و مشینری ٹرانسفارمر سمیت چوری ہو گٸی اور اس باعث پخی بالا کو پانی کی فراہمی کا یہ منصوبہ پھر سے تعطل کا شکار ہوا۔

پخی۔بالا سے تعلق رکھنے سماجی کارکن سمیع اللہ آفریدی نے بتایا کہ2017_16 کے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں پخی بالا کیلئے این اے 51 کے ایم این اے  قیصر جمال نے ایک کروڈ سولہ لاکھ کا فنڈ پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبوں کیلئے ایک ٹینڈر کی صورت میں جاری کیا جس پر شاہ انجینئرنگ کپنی نے 720 فٹ گہرے ٹیوب ویل کی بورنگ کی جو کامیاب بھی ہوئی، ذرائع کے مطابق آرٹیفیشل کرش پلانٹ ڈالنے سے کنواں کا پانی بند ہو گیا جس سے ٹیوب ویل ناکام ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پخی بالا کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے چار تالابوں کی تعمیر کیلئے چالیس چالیس لاکھ کے فنڈز بھی ریلیز ہوئے لیکن بدقسمتی سے تالابوں کی تعمیر پر موثر کام نہیں ہو سکا اور فنڈز زیادہ تر خردبرد کا شکار ہوئے، ”پخی بالا سمیت اشوخیل کیلئے مختلف ادوار میں اس حوالے سے فنڈز جاری ہہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے فنڈز کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی متعلقہ اداروں کی طرف سے چیک اینڈ بلینس کا کوئی نظام موجود رہا۔”

''40 سال سے دیگر خواتین کے ہمراہ سر پر پانی لاتی ہوں''

آںھوں نے بتایا کہ ہر دور حکومت میں قوم سے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وعدوں سے مکر جاتے ہیں، ”اس میں حکومت اور قوم کے مشران دونوں قصوروار ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تمام بدانتظامی اور خرد برد کا خمیازہ یہاں کی خواتین کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔”

پخی بالا کے باسی سب ڈویژن کے دوسرے قبائل بوڑہ، حسن خیل و جناکوڑ سے بھی شکوہ کناں ہیں کہ ان اقوام نے  اشوخیل کے پانی کے مسئلے کے حل کے لئے کسی قسم کا تعاون یا سنجیدہ کردار ادا نہیں کیا، قوم بوڑہ جواکی میں آرمی نے ایک واٹر ٹیوب ویل سکیم شروع کی ہے جس سے بوڑہ سمیت پخی بالا کو پانی کی سپلائی ہو گی۔

اس اقدام سے پخی بالا کے باسی جہاں خوش دکھائی دیتے ہیں تو مایوس بھی نظر آتے ہیں کہ اتنے عرصے کے دوران بوڑہ نے اشوخیل کو پانی کی سپلائی کیلئے کوئی تعاون نہیں کیا، اب بھی پانی کی فراہمی مشکل ہے لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہںے کہ بوڑہ میں پینے کا پانی بمشکل وہاں کے لوگوں کی ضروریات پوری کر رہا ہے، خشک سالی کے دنوں میں خود بوڑہ کے عوام پانی کے حصول کے لئے آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔

علاقے میں ناقص منیجمنٹ اور سیاسی عزم کی کمی اور اتحاد و اتفاق کے فقدان نے بھی اس مسئلے کو گھمبیر بنایا ہے، مسائل جزوی طور پر انسانوں کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرف سے حل بھی ہوتے ہیں، اس مسئلے کے حل کرنے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

115 پی کے حلقہ سے منتخب موجودہ ایم پی اے شعیب آفریدی، این اے 51 کے ایم این مولانا مفتی عبد الشکور کی اشوخیل میں پانی کے بحران کو ختم کرنے کیلئے موجودہ پالیسی کے حوالے سے جمعیت طلباء اسلام صدر ایف آر پشاور جنید آفریدی کا کہنا ہے کہ ہم اشوخیل کے پانی کے بحران سے نمٹنے کلیئے  موثر کوشیں کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2019_20 کے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں ایف آر پشاور میں واٹر سکیم کیلئے پبلک ہیلتھ ڈیپارڈمنٹ کی طرف سے ایک کروڈ 30 لاکھ کا فنڈ ریلیز ہوا تھا جو ناکافی تھا لیکن سب ڈویژن پشاور میں فنڈ سے تین ٹیوب ویلز کی بورنگ پر کام کیا گیا، 2020_21  کے سالانہ فنڈ میں 6 ایف آرز میں واٹر اسکیم کے لئے لوکل گوررنمنٹ کی طرف سے 4 کروڑ  کا فنڈز مختص کیا گیا ہے جو ناکافی ہے۔

جنید آفریدی کے مطابق ایک سولر ٹیوب ویلز پر 1 کروڑ سے زیادہ لاگت آتی ہے جبکہ پخی بالا میں زیر زمین پانی بہت گہرا ہے جس کیلئے 800 فٹ گہری بورنگ کرنا پڑتی ہے، بورنگ کے بعد زیر زمین پانی کی سطح رفتہ رفتہ کم پڑنے کا خدشہ رہتا ہے، ”ہم نے اشوخیل کندی فریدی میں پخی بالا کیلئے سولر ٹیوب ویل سکیم پر کام کر رہے ہیں جس سے پخی بالا کو درپیش پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

حکومت کی ہٹ دھرمی اور علاقہ مشران کی آپس میں نااتفاقی کی وجہ سے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا، کئی ادوار میں فنڈز بھی ریلیز ہوتے رہے ہیں لیکن علاقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا، علاقے  کے باسی خود ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات کا شکار رہںے ہیں، ہر کوئی اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا رہا ہے، ان میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ قوم کی خدمت کا جذبہ موجود نہیں ہے، جب اتحاد و اتفاق کا فقدان ہو گا تو حکومت ان کی غیرسنجیدگی سے فائدہ اٹھائے گی اور مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے، صدیوں سے اشوخیل کو پانی کے بحران کا مسئلہ درپیش ہے لیکن افسوس ہے کہ اب تک ان کا مسئلہ ان کے آپسی تنازعات اور دشمنیوں کی وجہ سے حل نہیں کیا ہو سکا ہے۔

حکومت اور قومی مشران  کو چاہیے کہ وہ پخی زیریں میں واقع پخی نیکہ چشمہ سے دونوں شاخوں کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے کردار ادا کرے جس سے  پخی بالا کے پانی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔

اہل علاقہ کا مطالبہ ہے کہ پخی بالا سمیت تمام اشوخیل میں موجود ٹیوب ویلز پر جاری کام جلد ازجلد مکمل کیا جائے، پانی کی سپلائی کیلئے سولر پلانٹس اور جدید مشینری فراہم کی جائے، اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے تمام سیاسی رہنماء، تمام فریقین اور علاقہ مکینوں کو اس چیلینج سے نمٹنے کی خاطر اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانا پڑیں گی۔

ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے سے یہ بحران ختم نہیں ہو گا، یہ مسئلہ قوم کا مسئلہ ہے جس سے ہماری خواتین کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آپس کی لڑائی، الزام تراشی اور سیاسی کشمکش کو ختم کر کے اپنے حقوق کیلئے ایک ہونا پڑے گا، اس بحران کو ختم کرنے کیلئے سب کو مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا ہو گا، اگر قوم کے مشران اور نئی نسل باہمی نفاق کی وجہ سے اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رہے تو حکومتی ادارے کبھی بھی مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہیں ہوں گے جس کے نتائج ہماری قبائلی خواتین کو بھگتنا پڑیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button