سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاع

جب وزیرستان کی باہمت خاتون بندوبستی علاقوں کی پڑھی لکھی لڑکیوں کے ساتھ ایک صف میں بیٹھ گئی

 

سٹیزن جرنلسٹ بشریٰ محسود

‘جب میں اندر ہال میں گئی اور میں نے دروازہ کھولا تو میرے آنکھوں کے سامنے ایک عجیب منظر تھا بہت ساری تعلیم یافتہ یونیورسٹی کی لڑکیاں وہاں ہال میں ترتیب سے بیٹھی تھی اور ایک میڈم ان کو سمجھانے میں مصروف تھی کچھ پل کے لیے یہ منظر دیکھ کر میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ ان لوگوں کے بیچ میں آخر کار میں کیا کروں گی میں تو ایک ان پڑھ گھریلو خاتون ہوں’

یہ کہنا ہے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی انیلا کا جنہوں نے غربت کی وجہ سے گھر میں ہی اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا ہے۔ اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے انیلا نے بتایا ‘میں ایک گھریلو خاتون اور گھر میں ہی چھوٹے سے پیمانے کا کاروبار کرتی ہوں کیونکہ ہماری مالی حالات بہت خراب ہے میرے شوہر اکثر بیمار رہتے ہیں اور وہ مزدوری کرتے ہیں گاؤں میں ہماری حالت پھر بھی کچھ بہتر تھی لیکن آپریشن کے بعد جب ہم علاقہ بدر ہوئے تو ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس لیے میں نے گھر میں ہی ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جس سے مشکل سے ہمارا گزر بسر ہوتا ہے
جب مجھے میرے شوہر نے کہا کہ اپنا شناختی کارڈ لو اور جلدی سے تیار ہو جاؤ تم نے ایک ٹریننگ میں جانا ہے کچھ پل کے لیے میں حیران تھی کہ آخر کار یہ ٹریننگ کیا ہوگی اور اس میں میں کیا کروں گی کیوں کہ زندگی میں کبھی بھی اس طرح کے پروگراموں یا ٹریننگ میں کبھی نہیں گئی تھی اور نہ کبھی ان کے بارے میں سنا ہے میرے ساتھ میرے گھر کی کچھ بزرگ خواتین بھی تیار ہو کر روانہ ہوگئی ایک خوبصورت ریسٹورنٹ کے سامنے ہم وہاں اترے اور اندر داخل ہوگئے تو میں بہت پریشان ہوگئی کیونکہ وہ جگہ بہت مختلف تھی، کچھ لڑکیوں نے ہماری رہنمائی کی اور سب سے آخری سیٹوں پر بیٹھنے کا کہا ہم وہاں خاموشی سے بیٹھ گئے اور دیکھنے لگے کہ کیا ہو رہا ہے’

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انیلا نے کہا ‘ کچھ وقت کے بعد ایک لڑکی آئی اور وہ پشتو میں ہم سے مخاطب ہوئی کہ اپنے شناختی کارڈ دکھاؤ ہم ساری خواتین نے اپنے اپنے شناختی کارڈ دکھائے اور کہا کہ ہم اس ٹریننگ کے لیے آئے ہیں انہوں نے میرا شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد مجھے واپس کر کے کہا کہ آپ اس ٹریننگ میں بیٹھ سکتی ہے میرے ساتھ ایک دوسری خاتون کو بھی یہی کہا جبکہ باقی تین بزرگ خواتین کو انہوں نے گھر جانے کا کہا کہ آپ لوگوں کی عمر اس ٹریننگ کے لیے زیادہ ہے مجھے خوشی ہوئی کہ چلو میں آئی ہوں تو شکر ہے کہ مجھے رکھ بھی لیا ہے وہ میڈم اردو میں باتیں کر رہی تھیں اور انگریزی کے بہت سارے الفاظ استعمال کر رہی تھی اور ساری باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی، پھر اس میڈم نے مجھ سے میرا نام وغیرہ پوچھا تو میں نے پشتو میں اس کو اپنے بارے میں بتایا اس نے پوچھا کہ آپ کوئی بزنس کرتی ہے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آیا تو ساتھ بیٹھی ایک پختون لڑکی جو ہمارے علاقے کی تھی مجھے اپنی علاقائی زبان میں سمجھایا تو پھر میں نے میڈم کو اس سوال کا جواب دے دیا اور مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ یہ تو ہمارے علاقے کی لڑکی ہے۔ میڈم سمجھ گئی اور اس نے کہا کہ اب ہم ساری ٹریننگ پشتو میں کریں گے اور آپ لوگوں کو جو سمجھ نہ آئے تو آپ ہم سے پوچھ سکتی ہے اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا اور انہوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد آپ لوگ واپس اسی حال میں آ جائے تب بہت ساری لڑکیاں میری طرف بڑھی مجھ سے سلام کیا اور  اپنے علاقائی زبان میں مجھ سے باتیں کرنے لگیں تو میری خوشی اور بڑھ گئی اور مجھے حوصلہ ملا ۔بعد میں مجھے میڈم نے کچھ کاغذات پکڑائے جس پر کچھ لکھنا تھا اور میں تو پڑھی لکھی نہیں تھی میں بہت پریشان ہوگئی کہ اب میں یہ کیسے لکھ پاؤں گی کیونکہ میرے پاس تو کوئی پین نہیں تھا اور مجھے تو لکھنا ہی نہیں آتا میں بہت پریشان ہو گئی تھی کہ اب ہمارا کیا ہوگا اور میں اپنے شوہر کو فون کرنے لگی لیکن مجھے اپنے شوہر کو فون کرتے وقت مسئلہ تھا کہ مجھے فون کرنے کا طریقہ نہیں آتا کہ اس میں نمبر کونسا ہے تو میں نے سات بیھٹی ایک لڑکی سے کہا کہ فلانے نام کا نمبر اس میں سے لے کر اس کو فون کرو اس نے کہا کہ کیا کرنا ہے میں نے بتایا کہ اس سب کا بتاؤں گی کیونکہ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں مجھے تو نہیں آتا لکھنا کہ میں اب کیا کروں تب اس نے کہا کہ فون کرنے کی ضرورت نہیں ہے لاو مجھے دو میں آپ کو لکھ دیتی ہوں جب وہ فارم لکھنے لگی اور اس میں جو سوالات تھے اس کے جوابات مجھ سے پشتو میں پوچھتی تھی اور وہاں لکھتی گئیں تو میں بہت خوش ہوئی اور خدا کا شکر ادا کیا ۔اس کے بعد کاروبار کے لیے کوئی آئیڈیا سوچنا تھا جس میں وہاں کی لڑکیوں نے مجھے بہت مدد دی اور مجھے بہت پیار سے سمجھایا ہماری میڈم بھی بہت ہی اچھے اخلاق کی عورت تھی اور وہ ہر بات مجھے بہت ہی آرام سے بار بار سمجھاتی تھی جب تک ہم سمجھ نہیں جاتے تھے، مجھے جب کہا گیا کہ آپ سب کے سامنے آئے اور اپنے کاروبار پلان کے بارے میں سب کو بتائے گھبرانے کی کوئی بات نہیں آپ اپنی زبان میں اپنے طریقے سےبتائے اور پھر میرا خوف ختم ہوا اس پورے ٹریننگ میں مجھے کبھی بھی احساس نہیں ہونے دیا گیا کہ میں ایک ان پڑھ گھریلو خاتون ہوں’
اس طرح ہمارے پندرہ دنوں کی ٹریننگ ہنسی خوشی گزر گئی۔ اس پورے ٹریننگ میں مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا تھا کہ کاش میں بھی پڑھی لکھی ہوتی تو آج میں اپنے سارے فارم اپنے سارے کام خود کرتی اور میں نے دل میں یہ پکا سوچ لیا کہ میں اپنے خاندان کی تمام لڑکیوں کو پڑھانے کے لئے پوری پوری کوشش کروں گی اپنے گھر کے مردوں کو سمجھاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہے آج کل کے دور میں لڑکیوں کے لئے اور مجھے اس دن احساس ہوا کہ لوگ صحیح کہتے ہیں کہ تعلیم روشنی ہے اور تعلیم آنکھیں ہیں جس سے آپ وہ دنیا دیکھ سکتے ہیں جو کہ ایک ان پڑھ انسان نہیں دیکھ سکتا ۔اب میں خود میں بہت بدلاؤ محسوس کر رہی ہو ۔میں نے نہ صرف یہاں سے کاروبار کے طور طریقے سیکھے بلکہ خود کو مضبوط کرنے کا بھی مجھے ہنر آگیا اب میری سوچ وہ سوچ نہیں رہی جو پہلے انیلا کی تھی میں ٹریننگ میں کاروبار کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی اور تعلیم کی اہمیت کے تمام پہلوؤں سے واقف ہو گئی ہوں’

انیلا نے کہا کہ تعلیم یافتہ یونیورسٹی کی لڑکیوں کے بارے میں جو میری سوچ بنائی گئی تھی وہ یکدم بدل گئی ہے، اس ٹریننگ سے ہمیں بہت فائدہ ہوا اب میں اپنے چھوٹے سے کاروبار کو ایک بڑے پیمانے پر کرسکتی ہوں اور انشاء اللہ بہت جلد میں کامیاب کاروباری خواتین کی لسٹ میں خود کو شامل کروں گی اور میں لوگوں کو بتاؤں گی کہ پردے میں رہ کر اپنے اسلامی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے کیسے عورت کامیاب کاروبار کر سکتی ہے ۔اگر حکومت ہمیں ایسے مواقع دیں اور ہمیں کاروباری طور طریقے سمجھائے تو ہم قبائلی خواتین بھی گھروں میں رہتے ہوئے کامیاب کاروبار کر سکتی ہے اور ہمارے لئے تعلیم کو عام کرے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں تعلیم کی روشنی سے فیض یاب ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button