300 طلباء کے لئے 2 کمرے، شانگلہ میں تعلیمی ایمرجنسی چیخ چیخ کر اپنا حال سنا رہی ہے
سی جے طارق عزیز
چھ کلاسز کے تقریباً 300 طالب علم اور دو کمرے، یہ ہے گورنمنٹ پرائمری سکول کیڑی شانگلہ۔ تقریباً تین ہزار آبادی پر مشتمل گاؤں کا واحد پرائمری سکول جو پختونخواہ حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کا حال چیخ چیخ کر بتا رہی ہے۔
اس ماحول میں بچے کس طرح اپنی پڑھائی کرتے ہیں اور انہیں کن مسائل کا سامنا ہے، یہ سوچ کر بھی بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ کلاس پنجم کے ایک طالبعلم عمران اللہ کا کہنا ہے کہ سکول میں جگہ کم ہے، ‘ہم تو اندر کمروں میں بیٹھتے ہیں لیکن دوسری اور تیسری جماعت کے طلباء کمروں کے باہر راستے میں چٹائیوں پر بیٹھے کلاس لیتے ہیں۔’
سکول انتظامیہ کے مطابق گرمیوں میں تو پھر بھی یہ طلباء گزارہ کر لیتے ہیں لیکن سردیوں میں بعض اوقات ان کے لئے باہر بیٹھنا ناقابل برداشت ہوتا ہے اور خصوصی طور پر بارش کے دنوں میں ان کو اکثر اوقات چھٹی دی جاتی ہے۔
اسی سکول میں دوسری جماعت کے شاہ فہد بولے، ‘ہم بارش میں یا تو چھٹی کر لیتے ہیں اور یا اساتذہ کمرے کے اندر دوسرے کلاسز کے طلباء کے ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔’
اسی ماحول میں بچوں کو پڑھانے میں اساتذہ کو کون سے مسائل ہوتے ہیں اس بارے میں سکول کے ایک استاد حسن زیب نے ٹی این این کو بتایا کہ سکول کے تمام اساتذہ بہت محنتی اور قابل ہیں لیکن ان کی محنت اور قابلیت کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک طلباء کو کلاس روم کا ماحول میسر نہ ہو۔
‘ہماری مجبوری ہے کہ ایک کمرے میں دو، دو کلاسز کے طلباء کو بٹھائیں اور انہیں پڑھائیں، جب بارش وغیرہ نہ ہو تو ہم بچوں کےساتھ سکول کے سامنے بڑے راستے میں ہی کلاس لیتے ہیں۔’
حسن زیب کا مزید کہنا تھا کہ ایسے ماحول میں طلباء کو وہ سمجھ اور فائدہ نہیں مل رہا جو انہیں ملنا چاہئے، ‘ہم ایمانداری کے ساتھ بھرپور کوشش کرتے ہیں سکول میں کمرے بنانا ہمارے بس میں نہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سکول میں پانچ اساتذہ ہیں جو کہ سکول کیلئے کافی ہیں لیکن کمروں کی کمی کی وجہ سے انہیں پڑھانے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔
ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤں کے ایک مقامی شخص سعید آحمد نے کہا کہ 2020 میں جہاں دنیا چاند پہ پہنچ چکی ہے اور ہمارے بچوں کو بنیادی تعلیم کی سہولت میسر نہیں، ‘یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے اور ہم سب کیلئے شرم کا مقام ہے کہ ہمارے یہاں پرائمری سکول کی یہ صورتحال ہے جہاں بچوں کیلئے بیھٹنے کی جگہ نہیں’ – انہوں نے مقامی لوگوں سمیت سب کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں سب ڈویجنل ایجوکیشن آفیسر اورنگزیب نے بتایا کہ سکول کیلئے زمین موجود نہیں جس میں اضافی کمروں کی تعمیر ہو سکے، اگر سکول کے ساتھ بغیر پیسوں کے زمین مل جائے تو یہ مسئلہ بہت جلد حل ہو سکتا ہے۔
اورنگزیب نے مزید بتایا کہ اس سکول کی دوبارہ تعمیر کی منظوری ہو چکی تھی لیکن زمین نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی کینسل ہو گئی۔
تحریک انصاف کے پچھلے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ایگزیکٹیو آرڈر پر پورے صوبے میں تقریباً 100 سکولوں کی منظوری ہو چکی تھی جن میں کیڑی کے ایک اور محلہ قلعہ میں پرائمری سکول بھی شامل تھا جس کے بننے کے بعد توقع تھی کہ آدھے سے ذیادہ طلباء چونکہ اسی محلے کے ہیں تو اس سکول کے بننے کے بعد موجودہ سکول میں بچوں کی تعداد کم ہو جائے گی لیکن بعد میں وہ آرڈر بھی کینسل ہو گیا اور اس طرح یہ خواہش خواہش ہی رہ گئی۔