خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمفیچرز اور انٹرویو

ایک لاکھ دس ہزار آبادی کے لئے صرف ایک گرلز ہائی سکول؟

سی جے عظمت تنہا

ضلع بونیر کی تحصیل، چغرزی میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے صرف اور صرف ایک ہائی سکول قابل افسوس امر ہے۔

تحصیل کے واحد گرلز ہائی سکول کی عمارت دو ہزار آٹھ نو میں شدت پسندوں نے جلائی تھی جو کہ بارہ سال بعد بھی جوں کی توں پڑی ہے۔

تعلیمی ایمرجنسی کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا مسلسل آٹھواں سال جاری ہے تاہم ایمرجنسی کا یہ جھونکا ابھی بھی ودای چغرزی سے ہو کر نہیں گزرا۔ تحصیل چغرزی کی ایک لاکھ دس ہزار آبادی میں صرف ایک لڑکیوں کا سکول مقامی افراد کے لئے باعث تشویش اور بچیوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف جبکہ حکومت کے لئے باعث شرم ہے۔

چغرزی کے ایک گورنمنٹ سکول میں تعینات سی ٹی استاد شوکت علی کا کہنا ہے کہ چغرزی کے طلبہ کی طرح طالبات بھی انتہائی محنتی اور ذہین ہیں لیکن آگے نہ آنے کی بڑی وجہ چار یونین کونسلوں میں مڈل لیول سے آگے گرلز سکول کی عدم موجودگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ دس ہزار آبادی والی تحصیل کی صرف ایک یونین کونسل میں گرلز ہائی سکول موجود ہے جس میں بھی سٹاف اور ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت کم تعداد میں طالبات تعلیم حاصل کر پا رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا حکومت وقت سے بھرپور مطالبہ ہے کہ پرائمری، مڈل اور ہائی لیول پر طالبات کے لئے نئے سکولوں کی منظوری کو یقینی بنایا جائے اور جب تک نئے سکولوں کی تعمیر ممکن نہ ہو پائے تب تک بوائز سکولوں میں سیکنڈ شفٹ میں گرلز کلاسز کا انتظام کیا جائے۔

ایک مقامی شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میری بیٹی نے پانچویں کا امتحان پاس کیا تو مجھ سے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ بابا میں نے آگے ضرور پڑھنا ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ قریب لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں تھا اور بچی کو پڑھانا میری مجبوری تھی کیونکہ بچی پڑھنے کی ضد کر رہی تھی اس لئے مجبوراً لڑکوں کے سکول میں داخلہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مڈل کا امتحان پاس کیا تو پھر بھی یہی مسئلہ درپیش تھا، بچی پڑھنا چاہتی تھی اور سکول قریب تھا ہی نہیں، دوسری طرف معاشرے کے لوگوں کی طرح طرح کی باتیں تھیں لیکن میں نے دل پر پتھر رکھ کر اپنی بیٹی کے مستقبل کو سنوارنے کی ٹھان لی آج لوگوں کی ہزارہا باتوں کے باوجود میری بیٹی اچھی خاصی پڑھی ہوئی ہے بلکہ اب ایک سرکاری یونیورسٹی سے ریگولر ماسٹرز کر رہی ہے۔

گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ٹوپی، چغرزی جس کی عمارت بارہ سال سے تعمیرنو کی منتظر ہے

ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت باپ اس معاشرے میں لڑکی کو لڑکوں کے سکول میں پڑھانا کتنا مشکل اور اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے یہ مجھ سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا تاہم میں نے یہ لہو کا گھونٹ پی لیا اور اپنی بیٹی کی پڑھائی پر سمجھوتہ نہیں کیا لیکن یہاں سینکڑوں لڑکیاں اور خاندان ایسے ہیں جن میں یہ باتیں ہضم کرنے کی طاقت نہیں ہوتی اور جلدی ہمت ہار کر اپنے بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے حکمران اہل علم ہوتے اور انہیں تعلیم کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا تو کسی بھی باپ کو بیٹی کی تعلیم کے لئے لوگوں کی باتیں نہ سننا پڑتیں۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ جس طرح لڑکوں کو حصول علم کا حق حاصل ہے ویسے ہی لڑکیوں کا بھی اتنا حق ہے اس لئے چغرزی کی بچیوں پر رحم کریں اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔

تحصیل کے واحد ہائی سکول ٹوپی چغرزی میں پڑھنے والی طالبہ مسماۃ (ب) نے سکول جانے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہر صبح کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے سکول جاتی ہوں، ”میری بہت سی سہیلیاں ایسی ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کا شوق رکھتی ہیں لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں اتنی دور پیدل سفر کرنے کی گھر والے اجازت نہیں دیتے۔

مسماۃ (ب) نے مطالبہ کیا کہ یا تو علاقے میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد بڑھا دی جائے یا موجودہ سکول کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے تو کم سے کم ایک یونین کونسل کی لڑکیوں کا مستقبل تاریکیوں سے نکل کر علم کی روشنی سے روشناس ہو سکے گا۔

جماعت ششم میں سکول چھوڑنے والی مسماۃ (ب) کی سہیلی سیدہ نے سکول چھوڑنے کی وجہ بھی قریبی سکول کا نہ ہونا بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ششم جماعت میں داخلہ لیا تو دو تین مہینے تک سکول جاتی رہی پھر گھر والوں نے جانے سے منع کیا کیونکہ سکول دور تھا ہم لڑکیاں اکیلی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتی تھیں اور گھر والوں کو ہر وقت فکر رہتی اسی لئے میں شوق کے باوجود ریگولر تعلیم جاری نہ رکھ سکی، اب پرائیویٹ امتحانات میں حصہ لے رہی ہوں لیکن ریگولر اور پرائیوٹ تعلیم کے حصول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کل تمام بھرتیاں این ٹی ایس جیسے اداروں کے ذریعے ہوتی ہیں جب آپ نے ریگولر تعلیم حاصل نہ کی ہو تو ٹیسٹ کوالیفائی کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اسی لئے علاقے کی زیادہ تر لڑکیاں ماسٹرز کرنے کے باوجود بھی نوکریوں سے رہ جاتی ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔

تحصیل کے واحد گرلز ہائی سکول ٹوپی کی انچارج نے سکول کے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سکول کی سابقہ ہیڈ مسٹریس کا ٹرانسفر ہوئے کئی مہینے گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک دوسری ہیڈ مسٹریس کی تعیناتی نہیں ہوئی اور میں بطور انچارج کام کر رہی ہوں، سکول کی بلڈنگ بھی خستہ حالی کا شکار ہے اور حکومتی بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ دو ہزار آٹھ/نو میں شر پسندوں کی طرف سے جلائی گئی سکول عمارت کا آج تک کسی نے نہیں پوچھا۔

انہوں نے کہا کہ سکول میں پینے کے صاف پانی کا بھی کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہے، سکول میں ٹیچنگ سٹاف کی اشد ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ گرلز سکول ہونے کے باوجود بھی ایک گاؤں کے علاؤہ باقی لڑکیاں بوائز سکولوں میں جانے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سکول کی نذرآتش کردہ بلڈنگ کی جلد تعمیر نو کی جائے، سٹاف کی کمی کو دور کیا جائے اور دور دراز کی آبادی کے لئے سکول کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جائے۔

واضح رہے کہ ضلعی تعلیمی دفتر کے مطابق تحصیل چغرزی کی چار یونین کونسلوں میں سکولوں کی کل تعداد 136 ہے جن میں میل سکولوں کی تعداد 97 جبکہ فی میل سکولوں کی تعداد 39 ہے۔

ریکارڈ کے مطابق گرلز ہائی سکولوں کی تعداد 2، گرلز مڈل سکولوں کی تعداد 7 اور گرلز پرائمری سکولوں کی تعداد 30 ہے جبکہ بوائز پرائمری سکولوں کی تعداد 71، پرائمری 3، بوائز مڈل 10، بوائز ہائی 11 جبکہ بوائز ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد 2 ہے۔

یاد رہے کہ ان میں سے گراؤنڈ پر صرف ایک گرلز ہائی سکول اور پانچ مڈل سکولوں کی عمارتیں موجود ہیں۔ اس کے علاؤہ باقی سکولوں کا تعمیراتی کام کاغذات کی حد تک جاری ہے یا ہو چکا ہے تاہم عوام اسے دیکھنے سے قاصر ہیں۔

حلقہ پی کے 21 سے منتخب ایم پی اے سید فخر جہان باچا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ رواں مہینے میں نئے سکول بنانے کی منظوری دے دی گئی ہے جس میں چغرزی کا یہ دیرینہ مسئلہ بھی حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا پیریڈ شروع ہونے سے پہلے ہم نے سیکنڈ شفٹ میں بوائز سکولوں میں گرلز کلاسز کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کیا تھا لیکن بدقسمتی سے کرونا کی وجہ سے اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کہ چغرزی کے لئے گلبانڈی کے مقام پر گرلز ڈگری کالج کی منظوری اور ٹینڈرنگ وغیرہ کا کام مکمل ہو چکا ہے جس پر بہت جلد کام شروع ہو جائے گا جس کے بعد یہاں کی بچیوں کے لئے گھر کی دہلیز پر اعلی تعلیم کا حصول ممکن ہو جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button