خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

پاکستان میں کورونا وائرس سے کم اموات کی وجہ کیا؟

 

سٹیزن جرنلسٹ سلمیٰ جہانگیر
چند ماہ کے دوران ہی دنیا کو بہت سے حوالوں سے بدلنے والے کرونا وائرس نے پاکستان میں بھی زندگی کو پوری طرح متاثر کیا یہاں کے لوگ خوش قسمت تھے کہ وہ باقی ملکوں کے مقابلے میں اس وائرس سے کم مرے لیکن پھر بھی ہر شعبے سے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کرنے کا باعث بننے والے اس وائرس نے سینکڑوں لوگوں کی جانیں لیں۔ اس وائرس نے لوگوں سے زندگی گذارنے کے وسائل اورنوکریاں چھینیں یوں تو اب اس کا وار اور رفتار تھمنے لگا ہے لیکن پھر بھی اس کے مڑ کر واپس آنے کے امکانات ابھی بھی موجود ہیں۔
گذشتہ سال نومبر میں چین کے شہر ووہان میں نمودار ہونے والے اس وائرس کا نام کوڈ نائنٹین رکھنے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ وائرس جو سال دو ہزار انیس میں کرونا کی بیماری کا باعث بنا رواں سال یعنی دوہزار بیس میں بھی اس بیماری کو کوڈ نائنٹین ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جب تک یہ وائرس ہوگا اور اس سے لوگ بیمار ہونگے اس کا یہی نام چلے گا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ وائرس پہنچا تو اس نے سب سے پہلے اس کے دوسرے بڑے شہر مردان کی یونین کونسل منگا میں لوگوں کو متاثر کیا اوریوں چھپن ہزار آبادی کے اس یونین کونسل کو پوری طرح قرنطینہ کردیا گیا۔ منگا میں وائرس پہنچنے کو پچاس سالہ سعادت خان کے عمرے کا سفر ذریعہ گردانا جارہا ہے جہاں پر خیرات کے دوران اس سے گلے ملنے والے بہت سارے لوگ اس سے متاثر ہوئے جن میں اس کے اپنے اہل خانہ بھی شامل تھے۔
پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ وہ وقت بھی آیا کہ پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں سمیت بہت سارے ہسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کی جگہ کم پڑگئی خود محکمہ صحت کے بہت سارے ملازمین متاثر ہوکر مرے بھی اورمتاثر بھی ہوئے۔ جو اس بیماری کے حوالے سے لوگوں میں شدید تشویش کا باعث بنا لیکن پھر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اچانک اس بیماری کے شکار لوگوں کی تعداد کم ہونے لگی ٹسٹوں میں پہلے کے مقابلے میں کم لوگوں میں اس بیماری کی تشخیص ہونا شروع ہوئی، ہسپتالوں میں وہ بیڈ جو ہر وقت کرونا کے مریضوں سے بھرے رہتے تھے خالی ہونے لگے اورنئے مریض آنے کا سلسلہ تھم گیا۔ خود حکومتی عہدیداروں اورنمائںدوں نے اس کی تصدیق کردی کہ حالات بہتر ہورہے ہیں البتہ انہوں نے ساتھ ہی ساتھ یہ ہدایات بھی جاری رکھیں کہ ابھی وائرس مکمل طورپرختم نہیں ہوا اس لئے لوگ اب بھی احتیاط کریں۔
پاکستان اورخاص کر خیبرپختونخوا میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں کمی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں عالمی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہاں پر اب تک متاثر ہونے والے ستر فی صد لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ متاثر ہوچکے ہیں وہ خود بخود ہی ٹھیک بھی ہوئے جبکہ ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے بغیر ٹسٹ اورکسی قسم کے علامات ظاہر ہونے کے یہ بیماری گذار بھی لی ہے جبکہ جو باقی لوگ ہیں ان میں بھی یہ بیماری خود بخود کم ہوتی گئی اور یہ وقت آگیا ہے کہ اب اس سے مزید ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس قسم کی بیماریوں کے پھیلاو کا بھی ایک وقت ہوتا ہے اوراس کے کم ہونے کا بھی ایک خاص وقت ہوتا ہے اور اس سے پہلے بھی جتنے ایسے وائرس وجود میں آئے وہ اپنے آنے کے کچھ عرصے بعد خود ہی کم پڑتے گئے۔
اسی طرح عالمی ادارہ صحت کے اسی نمائندے سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ وائرس دوسری بار بھی کسی کو متاثرکرسکت اہے یعنی اگر مریض ٹھیک ہوجائے تو کیا اس مریض کو دوبارہ بھی یہ وائرس لگ سکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا اس پر ابھی تحقیق جاری ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں، اس کا جواب تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی مل سکتا ہے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا وارڈ میں ڈیوٹی سرانجام دینے والے ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ چین اور یورپی ممالک میں کورونا متاثرین کے برعکس پاکستان میں اس وائرس سے متاثرہ افراد میں پھیپھڑوں اور نظام تنفس کے زیادہ مسائل سامنے نہیں آتے بلکہ یہاں زیادہ تر مریضوں میں جے آئی (معدہ اور آنت سے متعلق) علامات ظاہر ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں دست اور قے کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس بہت کم مریضوں کے پھیپھڑوں اور تظام تنفس پر حملہ آور ہوتا ہے اور یہاں کم اموات کی شائد یہی ایک وجہ ہے۔
کرونا سے متاثرہ ممالک اورلوگوں کے بارے میں دستیاب نئے ریکارڈ کے مطابق اس وائرس سے امریکہ، اٹلی، سپین اور برطانیہ میں زیادہ تباہی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ یہ وہاں قدرے زیادہ سرد موسم میں پھیلا اور اس کی وجہ لوگ امراض قلب، پھیپھڑوں اور نظام تنفس کی بیماریوں میں جہاں مبتلا ہوئے وہیں پر اس وائرس نے ان امراض کے پرانے متاثرین کو بھی زیادہ نقصان پہنچایا۔
اس کے مقابلے میں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے اموات کی شرح ان خدشات سے کافی کم ہے جو ماہرین نے ان ممالک کی غربت اور کمزور نظام صحت کی وجہ سے ظاہر کئے تھے۔ اگر مختلف ممالک کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اموات کی سب سے زیادہ شرح اٹلی اور برطانیہ کی ہے جہاں مثبت آنے والے ہر 100 میں سے 14 لوگ مر چکے ہیں، اسی طرح سپین میں یہ شرح 11 اور امریکہ میں 5 فیصد سے تھوڑا زیادہ ہے جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں کمزور نظام صحت والے ایشیائی ممالک میں یہ شرح کافی کم دکھائی دی جن میں جہاں پاکستان اور افغانستان میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی شرح 2 سے ڈھائی فیصد، انڈیا میں 3 فیصد جبکہ سری لنکا میں صفر اعشاریہ 5 اور بھوٹان میں صفر ہے۔
پشاور میں واقع صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کورونا وائرس میں کمی کی وجہ سے عارضی کورونا وارڈ بند کر دئیے گئے ہیں۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق اپریل سے ستمبر تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 8 سو 2 مریض آئے جن میں 2 سو 70 مریض مرچکے ہیں جبکہ 6 سو 30 صحت یاب ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب صوبے کے دوسرے بڑے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ان کے پاس 10 مریض زیر علاج ہیں، جبکہ ایچ ایم سی ترجمان کا کہنا ہے کہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں بھی 13 کورونا مریض داخل ہیں جس کی وجہ سے یہ وارڈ ابھی بند نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں کرونا سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینے اوراقدامات اٹھانے کے مجاز فورم این سی او سی کے مطابق اکیس ستمبر تک ملک بھر میں صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 2 لاکھ 92 ہزار869 ہوگئی ہے، سندھ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 33 ہزار 947، پنجاب میں مریضوں کی تعداد 98 ہزار 428، کے پی میں کورونا مریضوں کی تعداد 37 ہزار 357 ، بلوچستان میں تعداد 14 ہزار 394، اسلام آباد میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 16 ہزار 162،آزاد جموں و کشمیر 2533, گلگت میں 3483 ہو گئی ہے۔
اس وائرس کے نمودار ہونے کے بعد دنیا کی چند بڑی یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی مٹی کی ساخت اورجراثیم سے لڑنے کی اس کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ یہاں کی خوراک خصوصا پیاز، لہسن اورادرک جیسی اشیا اس وائرس کا دباو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button