”ضلع خیبر میں انسداد ڈینگی پروگرام کیلئے مخصوص بجٹ ہی نہیں”
ممانڑہ آفریدی |سٹیزن جرنلسٹ|
ڈینگی وائرس سے 26 سالہ مجاہد خان صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ اس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا۔ اس مرض کا شکار ہونے کے بعد مجاہد خان اس بیماری سے متعلق اپے علاقے کے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک سماجی کارکن بن گئے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں کے مختلف حجروں میں جاتے ہیں اور اہل علاقہ کو اس بیماری کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدبیریں بتاتے ہیں۔
ملک کے دگر حصوں کی طرح قبائلی ضلع خیبر میں بھی، 2019 میں جہاں سے ڈینگی کے 359 کیسز رپورٹ ہوئے تاہم ایک بھی مریض جاں بحق نہیں ہوا، شعور و آگاہی کی کمی اور سرکاری ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات اس بیماری کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات میں سے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں مجاہد خان نے بتایا کہ پہلے چند روز میرا پورا جسم سخت دکھ رہا تھا اور تیز بخار بھی تھا، دن بدن اس درد میں اضافہ ہو رہا تھا پھر میں ایک سرکاری ہسپتال گیا جہاں ٹسٹ کے بعد مجھ میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ وقت میرے لیے انتہائی کٹھن تھا کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ ڈینگی ایک مہلک بیماری ہے، میں جس کرب یا تکلیف سے گزرا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے علاقے کے لوگ بھی اس سے گزریں۔
مجاہد خان کے مطابق چونک حکومت کی جانب سے لنڈی کوتل میں ڈینگی کے حوالے سے کوئی آگاہی مہم نہیں چلائی جا رہی تھی اس لیے میں نے اپنے لوگوں کو اس موذی مرض سے آگاہ کرنے اور انہیں اس سے بچانے کی ذمہ داری خود نبھانے کا فیصلہ کر لیا۔
ٹی این این کی جانب سے رابطے پر ضلع خیبر کے انسداد ڈینگی پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ پورے خیبر میں ڈینگی آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے لیکن ہم نے اپنی زیادہ توجہ جمرود اور باڑہ پر اس لیے مرکوز رکھی ہے کہ امسال وہاں سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انسداد ڈینگی مہم کیلئے ان کا کوئی خاص بجٹ نہیں ہے، ملیریا پروگرام کے عملے اور جراثیم کش ادویات ہی بروئے کار لائی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر خالد کا دعویٰ ہے کہ خیبر کی ٹیم نے محدود وسائل میں بے تحاشہ کام کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سپرے وافر مقدار میں موجود نہیں تھا تاہم پھر بھی ہیلتھ ٹیموں نے نوگزی بابا، شلوبر، عالم گودر، ڈوگرا، باڑہ، شاکس، وزیر ڈھنڈ اور لندی کوتل کے بعض علاقوں میں ضرور سپرے کیا۔
ڈاکٹر خالد کے مطابق سپرے اس بیماری کا آئیڈیل علاج بھی نہیں، سب سے ضروری کام یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں اور آس پاس موجود کھڑا پانی صاف/خشک کریں، خواتین میں اس حوالے سے آگای سب سے زیادہ کم ہے کیونکہ زیادہ تر مہمات مردوں پر مشتمل عملہ ہی چلاتا ہے، معاشرے میں پائے جانے والی نزاکتوں کے باعث مجاہد خان جیسے رضاکاروں کیلئے خواتین کے پاس پہنچنا ناممکن ہی ہوتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں جمرود اور لنڈی کوتل کی خواتین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ڈینگی وباء کے حوالے سے خواتین کیلئے مخصوص مہم نہیں چلائی گئی۔
ڈینگی بخار میں مبتلا رہنے والی 44 سالہ بخت پرکہ کا کہنا تھا کہ صحت کے ذمہ داروں کو سلطان خیل میں اس مرض کی وبائی صورتحال کا بخوبی ادراک تھا لیکن وہ مریضوں کی مدد کیلئے نہیں آئے، گاؤں والوں نے ان سے مچھر مار سپرے مہیا کرنے کی درخواست کی جس پر پہلے پہل تو انہوں نے کان نہیں دھرے تاہم مسلسل درخواستوں پر انہوں نے گاؤں میں مچھر مار سپرے ضرور کیا۔
ڈاکٹر خالد کے مطابق محدود عملے کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز اس بیماری سے متعلق آگاہی پھیلانے کیلئے اگر سبھی نہیں تو بعض دیہاتوں میں ضرور گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ بعض گرلز سکولوں میں مرد ٹیموں کو ضرور بھیجنا چاہتے تھے لیکن حکومت کی جانب سے پابندی کے باعث وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ” ہم نے بعض سکولوں کو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مدد سے کور کرنے کی کوشش کی۔”
ڈینگی نے خیبر میں صرف مقامی لوگوں کو ہی نہیں بلکہ صحت کے حکام کو بھی متاثر کیا، خیبر کے ضلعی صحت افسر ڈاکٹر محمد شفیق آفریدی اپنے پانچ بچوں سمیت اس بیماری کا شکار ہوئے تھے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر شفیق نے بتایا کہ 12 اکتوبر کو ان میں اور ان کے بچوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی، تب سے لے کر اب تک ان کا علاج ہو رہا ہے اور وہ مچھر دانیاں اور مچھر مار سپرے استعمال کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کیلئے وہ پانی کا بھی بہت زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔
ہیلتھ حکام کا کہنا ہے کہ ڈینگی کا علاج علامتی ہے لیکن اس طرح کے علاج میں مشروبات کا استعمال نہایت ضروری ہوتا ہے۔
ماہرین صحت اور ڈاکٹر ڈینگی مرض کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ایڈیس اجپٹائی (ایک خاص قسم کا مچھر) ان وجوہات میں سے ایک ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گرم اور بارانی موسم اس حوالے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس وقت پانی جمع ہوتا ہے جو ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کی بنیادی وجہ ہے، اس کے برعکس سردیوں میں اس کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
ماہرین صحت کے نزدیک ڈینگی کی علامات میں تیز بخار، آنکھوں میں درد، زکام ایسی علامات، جلد کی رگڑ (سرخ ہو جانا) اور درد شامل ہیں۔ ان کی نظر میں سخت درد کی وجہ سے ڈینگی کو ہڈی توڑ بخار بھی کہتے ہیں۔
ڈاکٹر سلیم سمجھتے ہیں کہ ڈینگی انسانی صحت کیلئے ایک خطرہ ہے جس پر لوگوں میں شعور و آگہی پھیلاتے ہوئے قابو پانے کی ضرورت ہے۔ مجاہد طرح وہ بھی پشاور، چارسدہ اور خیبر کے بعض علاقوں میں رضاکارانہ طور پر آگاہی مہم چلاتے ہیں۔
مجاہد کا مشورہ ہے کہ حکومت کو ان کے علاقے کی طرح دیگر علاقوں میں وباء کے پھوٹنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہت پہہلے سے اس کے تدارک کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے دیگر تعلیم یافہ نوجوانوں سے بھی اس سلسے میں آگے آنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی گزارش کی اور حکومت سے یہ استدعا کی کہ چونکہ ڈینگی اس موسم میں غیرفعال ہوتا ہے لہٰذا اس کی روک تھام کیلئے پیشگی اقدامات کیے جائیں۔