بلاگزلائف سٹائل

والدین کو جو چیز کبھی میسر نا بھی ہو بیٹی کو جہیز میں مل جاتا ہے

 

نشا عارف
جن اشیا ضروری سے والدین ساری زندگی محروم ہوتے ہیں وہی چیزیں پھر بیٹی کو جہیز میں مل جاتی ہیں۔ کتنا آسان لفظ ہے مل جانا ، لیکن اسکے پیچھے شاید بوڑھے والدین کی جوانی ہوتی ہیں جو ساری زندگی بچوں کو سہولت دینے میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔

اکثر دیکھا ہوگا کہ جب بھی بیٹی کی شادی ہوتی ہے تو ضرورت کی ہر چیز جہیز میں دی جاتی ہے۔ اس میں وہ چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جس کے بغیر والدین نے ساری زندگی گزاری ہوتی ہے۔
پڑوس کی شازیہ بتاتی ہیں کہ انکا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے۔ جب تھوڑی سی بڑی ہو گئی تو اپنی امی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹھاتی تھی۔ وہ اکثر اپنی خالہ اور چچا زاد بہنوں کو دیکھتی تو اپنی امی سے یہ خواہش ظاہر کر دی کہ خالہ کے گھر اور چچا کے گھر میں واشنگ مشین کے ساتھ ڈرائیر بھی ہے اور ان کے گھر پہ نہیں ہے۔ امی اپ بھی ڈرائیر خرید کر دینا۔ جس طرح وہ کپڑے دھو کر اس میں سوکھاتی ہیں تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے ان کے دھلے ہوئے کپڑے جلدی سے سوکھ جاتے ہیں۔

نا صرف شازیہ بلکہ ہر مڈل کلاس کی بیٹی اپنی والدہ سے ضرور کہتی ہونگی گھر کی ضروریات زندگی کی ہر چیز ان کے گھر میں موجود کیوں نہیں ہے جو شاید دوسروں کے گھروں میں موجود ہیں۔ وہ ضرور مشورہ بھی دیتی ہونگی کہ یہ یہ چیز اس طرح ہونی چاہئے۔

شازیہ کو اپنے گھر میں بھی فرج کی جگہ فریزر کا ہونا پسند تھا۔ واشنگ مشین کے ساتھ ڈرائیر ہوتا۔ کاش گھر میں اون ہوتا تو تو اوون میں کھانا گرم کرتے۔ شازیہ ماضی کو یاد کرتی ہوئی کہتی ہیں کہ امی ان سے ہنس کر کہتی بیٹا جب پیسے ہوں گے تب یہ ساری چیزیں میں خرید کے دے دوں گی۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور کئی سال بیت گئے لیکن ان کے گھر میں ان کی خواہش کی کوئی اسائش کی چیز نہیں آئی۔

سب والدین ہمیشہ بچوں کو اچھے کی امید دیتے ہیں اور نا شکری سے منع کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ضرور بیٹی تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی اس طرح وقت گزرتا جاتا ہے۔

شازیہ کہتی ہے کہ ان کی شادی پر اس کی امی نے وہ ساری چیزیں جہیز میں دی جو وہ بچپن سے شادی تک اپنی امی سے ڈیمانڈ کرتی رہی۔ والدین امیر ہو یا غریب لیکن وہ اپنے لخت جگر کو وہ تمام سامان جہیز میں خرید کر دیتے ہیں جو ان کے گھروں میں کبھی ہوتے بھی نہیں ہے یا انہوں نے استعمال کی ہوتی ہے ۔خود وہ گزارا کرتے ہیں خود کو تھکا دیتے ہیں لیکن اپنی اسائش اور آرام کے لیے وہ چیزیں نہیں خریدتے لیکن بیٹی کو جہیز میں وہ ساری چیزیں دے دیتے ہیں۔

امی نے جیسے کہا تھا وہ کیا۔ بیٹی جب آپ کی شادی ہوگی یہ چیزیں مل جائے گی پھر تم استعمال کرنا۔ یہی ہوا شازیہ کی شادی پر وہ ساری چیزیں جہیز میں خرید کر دی گئ جس کی خواہش تقریباً روزانہ شازیہ کرتی تھی۔ لیکن اب ان کے پاس وہ ماں نہیں ہے صرف ان کی یادیں ہیں۔ شازیہ جب بھی اپنی جہیز کی چیزٰیں استعمال کرتی ہیں جس میں وہ تمام اشیا ضروریہ موجود ہے جو اس نے کبھی بھی اپنے میکے دیکھی بھی نہیں تھی۔ ان کو اپنی والدہ کی باتیں اب سمجھ میں آتی ہیں۔ اب ان چیزوں کی نہیں والدہ کو دیکھنے کی ضرورت اور خواہش ہے جو اب کبھی بھی پوری نہیں ہوسکتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button