"جب تم اپنی بیٹیوں کو نہیں پڑھا سکتے تو لیڈی ڈاکٹر کی ڈیمانڈ کیوں کرتے ہو”
سعدیہ بی بی
ہمارے ہاں جب بھی خواتین کے حقوق کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ اسلام نے تو 1400 سال پہلے ہی خواتین کو وہ حقوق دے دیے تھے جو معاصر معاشروں میں موجود نہ تھے۔ درست کہ اسلام نے تو خواتین کو حقوق دے دیے لیکن کیا ہمارے معاشرے نے بھی ان حقوق کو تسلیم کیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرتی پاور سٹرکچر میں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اسلام نے اسے دیے ہیں ؟ کیا اسے مرد کے مقابل مساوی حقوق میسر ہیں ؟ سچ یہ ہے کہ ہم نے پسند کی شادی ، وراثت ، تعلیم اپنے سماجی رتبے کے تعین اور ملازمت سمیت ہر معاملے میں عورت کے حقوق کو مرد کے تابع رکھا ہے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو خواتین کو ان کے حقوق دینا بہتر جانتے ہیں۔
کچھ روز قبل میری طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ جب اپریشن تھیٹر کے سامنے سے گزر رہی تھی تو دیکھا کہ وہاں ایک ہنگامہ بھرپا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اور نوجوان کے درمیان بحث چل رہی تھی۔ پتہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ایک خاتون کی ڈیلیوری کا وقت تھا اور اس کا شوہر بضد تھا کہ اس کا اپریشن لیڈی ڈاکٹر کرے گی کوئی بھی میل ڈاکٹر میری بیوی کا اپریشن نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اس وقت لیڈی ڈاکٹر دوسرا اپریشن کرنے میں مصروف ہیں۔ اپ ہمیں اپریشن کرنے دیں اپ کی بیوی اس وقت تکلیف میں ہے لیکن اس کا شوہر ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔ ڈاکٹر کو غصہ آگیا اور انہوں نے خوب سنا دی۔
ڈاکٹر نے اس غصے میں جو کچھ بھی بولا اسے سن کر وہاں کھڑے تماشائی اور میں حیران رہ گئی۔ ڈاکٹر نے پوچھا ، اپ کی بیٹیاں ہیں ؟ انہوں نے بولا ہاں تین بیٹیاں ہیں میری۔ پھر ڈاکٹر نے کہا پڑھتی ہیں؟ جواب ایا کہ ہم پٹھان ہیں ہم اپنی بیٹیوں کو نہیں پڑھاتے۔ اگے سے ڈاکٹر نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ جب تم اپنی بیٹیوں کو نہیں پڑھا سکتے تو ڈیلیوری کے وقت لیڈی ڈاکٹر کی ڈیمانڈ کیوں کرتے ہو۔ یہ بھی کسی کی بیٹیاں ہیں جن کے ماں باپ نے انہیں پڑھا لکھا کر اس مقام تک پہنچایا ۔ ہاں اگر اپ مجھے یہ کہتے کہ میری بیٹیاں پڑھتی ہیں تو اس ڈیمانڈ کی سمجھ اتی لیکن جب اپنی بیٹیوں کو تعلیم نہیں دے سکتے انہیں مستقبل میں لیڈی ڈاکٹر نہیں بنا سکتے تو ایسی ڈیمانڈز بھی نہیں کر سکتے۔ اپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں گے تو وہ مستقبل میں لیڈی ڈاکٹر بن کر اپ کے بھی کام ائیں گی اور دوسروں کے بھی۔ وہ نوجوان سر جھکائے ساری باتیں سنتا رہا اور اپنی کیے پر پشیمان تھا۔ اس کی بیوی کی حالت خراب تھی۔ اس نے ڈاکٹر سے التجا کی کہ جلد از جلد اپریشن کریں۔
اتنا سب کچھ دیکھ سن کر مجھے ایک اطمینان سا محسوس ہوا کہ آج بھی کچھ لوگ بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں بیٹیوں کی تعلیم کے سلسلے میں مسئلے درپیش ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ غربت کا اتا ہے، بہت سارے والدین اپنی بچیوں کو تعلیم اس لیے بھی نہیں دے سکتے کہ ان کے پاس تو دو وقت کی روٹی نہیں ہوتی وہ تعلیم کا خرچہ کہاں سے پورا کریں گے۔ کچھ والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں وہ میٹرک تک ان کی تعلیم کے خرچے برداشت کرتے ہیں باقی انکی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ کی دوسری بڑی وجہ سوچ کی ناپختگی ہے۔ اکثر والدین اپنی بیٹیوں کو اس لیے بھی تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے کہ بیٹیاں تو پرائے گھر کا مال ہے ایک نہ ایک دن تو اپنے گھر ہی ہو جائیں گی۔
تیسری بڑی وجہ اج کی معاشرتی برائیاں ہیں جس میں راہ چلتی لڑکی پہ جملے کسنا ہے۔ چوتھی بڑی وجہ جلد شادی ہے۔ پاکستان کے بہت سارے علاقوں میں اج بھی تعلیم کی بجائے جلد شادی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گورنمنٹ تعلیمی ادارے کم ہیں۔ اخر میں اتا ہے ڈر ، والدین کے ذہنوں میں دنیا کا ، لوگوں کا ، خاندان کا ، محلے والوں کا ، برادری کا ، اور معاشرے کا ڈر بیٹھ گیا ہے جو کہ لڑکیوں کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔
اگر گھر کے مرد اپنی بیٹیوں اور بہنوں پہ اعتماد کر کے ان کو تعلیم دلوائیں تو کوئی بھی لڑکی نہیں ڈرے گی۔ وہ یہ سوچ کر چلے گی کہ میرا سہارا ہے کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ دنیا ، رشتہ دار ، محلے دار اور برادری والے سب کو ایک سائیڈ پہ رکھ کے صرف اور صرف اپنی بیٹیوں کے بارے میں سوچیں۔
میرے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ کم از کم انٹر تک تعلیم کو ہر لحاظ سے مفت کیا جائے تاکہ ہر بچہ بچی کی تعلیم تک رسائی ہو اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائیں تاکہ مستقبل میں ہرشعبے میں خدمات سرانجام دیں سکیں۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہے اور مختلف سماجی ومعاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔