"ہم کتابیں صرف پڑھتے ہی کیوں ہیں؟”
وطن زیب خان
ہم نے سیکھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی بجائے صرف پڑھنے کو ہی ترجیح کیوں دی؟ چاہے وہ ہماری مذہبی کتابیں ہوں یا معاشرتی۔ ”قرآن حکیم کوئی رسمی کتاب نہیں ہے کہ ایک دفعہ پڑھ لی جائے یا مطالعہ کر لیا جائے اور اس کے ذریعے سے ذہنی آسودگی حاصل کرلی جائے یا خاص قسم کی وجدانی کیفیت اس کے نتیجے میں پیدا ہو جائے۔ بلکہ یہ کتابِ مقدس انسانیت کے نام پیغامِ ہدایت ہے۔ اس پیغام کو حقیقی انداز میں جاننا کہ یہ ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ ہماری سوسائٹی کی تشکیل کے لیے کیا رہنمائی دے رہا ہے؟ اور ہمارے معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ کار کیا بیان کر رہا ہے؟ اور پھر اس پیغامِ ہدایت کے تمام احکامات کو عمل میں لانے کا کیا طریقہ کار کیا ہوگا؟ محض معلومات حاصل کرنا کافی نہیں، بلکہ قرآنی احکامات کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آج ہماری غفلت سے جو کوتاہی پیدا ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن حکیم کا بھرپور شعور اور اس سے مکمل آگاہی نہیں ہے۔
لیکن اگر عمل کچھ نہ کیا جائے، صرف رسمی اور بے روح تلاوت کرنے کو کافی خیال کیا جائے، تو نتیجہ درست ظاہر نہ ہوگا۔ قرآن حکیم جب توجہ اور عقل و شعور کے ساتھ پڑھا اور سمجھا جائے، تو اس کے اثرات انسان پر مرتب ہو تے ہیں۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ہم نے صرف ول اسمتھ کو مبارکبادیاں دیں اور اسے سراہتے رہے لیکن کیا ہم میں سے کسی نے اس بات پر غور کیا کہ ول اسمتھ ہے کون؟ اور اس نے قرآن پاک کو کیسے پڑھا؟
ول اسمتھ ہالی وڈ اداکار ہیں جس نے قرآن پاک کو پڑھا اور سمجھا اور کہا "کہ روئے زمین پر اس جیسی کتاب ہدایت کوئی ہو ہی نہیں سکتی” کیونکہ ول اسمتھ نے قرآن کو عربی میں نہیں بلکہ اسے اپنی زبان انگریزی میں پڑھا اگر یہ عربی میں پڑھتا تو سمجھتا ہی نہیں، اس نے اپنی زبان انگریزی میں قرآن کو سمجھ کر پڑھا اور رہنمائی حاصل کی۔ مگر بحثیت مسلمان ہم میں سے بیشتر قرآن پاک کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہم صرف عربی ہی میں قرآن پاک کی تلاوت کو ثواب سمجھ کر پڑھتے ہیں حالانکہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے، رہنمائی حاصل کرنے، عملی زندگی میں اس کے احکامات پر عمل کرنے اور ہدایت لینے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور ان سب پر عمل درآمد کرنے سے ہی ہم معاشرے کا بہترین فرد بن کر مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کچھ وقت پہلے لاہور میں ایک آرگنائزیشن کے ساتھ میری انٹرن شپ کا پروگرام شروع تھا۔ ایک دن دفتر میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر کام شروع تھا کیونکہ الیکشن کے دن تھے ہر طرف بہت گہما گہمی تھی کہ اچانک ٹی وی پر بریکینگ نیوز چلنے لگی کہ اچھرہ بازار لاہور میں توہین مذہب کا واقعہ ہوا ہے کہ خاتون نے قرآنی آیات پر مبنی لباس پہنا ہے۔ جس پر کچھ لوگوں نے انھیں ایک دکان میں یرغمال بنایا کہ یہ قرآن پاک کی توہین ہیں حالانکہ وہ قرآنی آیات نہیں بلکہ عربی رسم الخط کا پرنٹ تھا۔ جس پر لفظ "حلوہ” لکھا تھا جس کی معنی ” خوبصورت،حسین و جمیل” کے ہی۔ں یہ خبر سنتے ہی چونک گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور جسے کالجوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اور ہمارے ہاں اگر کسی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہر جانا ہو تو لاہور کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے اگر ہمارے تعلیم یافتہ اور شعور یافتہ لوگوں کا یہ حال ہے کہ عربی رسم الخط اور قرآن پاک کی آیات میں فرق نہ کر سکے تو جانے باقیوں کا کیا حال ہوگا۔؟
ہمیں چائیے کہ قرآن پاک کو نہ صرف پڑھے بلکہ سمجھے بھی اور اسکی روشنی سے مستفید ہوں اور قرآن پاک سے اپنی دنیاوی زندگی سنوارنے کے طور طریقے سیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہو تب ہی ہم آخرت میں کامیاب ہوں گے۔۔۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔