رمضان میں مردوں کو اتنا غصہ آخر آتا کیوں ہے؟
رعناز
پرسوں میں کالج سے چھٹی کر کے واپس گھر جا رہی تھی. میں جس رکشے میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں تین عورتیں اور تین مرد بیٹے ہوئے تھے۔ ان تین عورتوں میں ایک میں بھی شامل تھی۔ ان تین مردوں میں سے ایک رکشے سے اتر گیا جب اس نے رکشے والے کو پیسے دیے تو رکشے والے کی آواز اچانک بلند ہو گئی اور دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔لڑائی کی وجہ کوئی اتنی بڑی یا خاص نہیں تھی۔ لڑائی صرف کرایہ پر شروع ہوئی۔ رکشے والا کہہ رہا تھا کہ کرایہ زیادہ بنتا ہے اور تم مجھے کم دے رہے ہو۔ جتنا رکشے والا غصے کا تیز تھا اس سے دگنا وہ رکشے میں سفر کرنے والا مرد تھا۔دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے یہاں تک کہ معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا۔ رکشے والا اچانک کہنے لگا کہ مجھے زیادہ غصہ نہ دلاؤ مجھے ویسے بھی روزے کی حالت میں غصہ زیادہ آتا ہے۔ خیر رکشے میں موجود دو اور مردوں نے کسی طریقے سے دونوں کی لڑائی ختم کروا تو دی لیکن وہ رکشے والا پورے راستے میں یہ ایک جملہ بار بار دہراتا رہا کہ میں روزے سے ہوں مجھے زیادہ غصہ آتا ہے اس لیے مجھے کوئی بھی نہ چھیڑے۔
اس رکشے والے کی اس بات سے میرے ذہن میں یہی سوال بار بار اٹھ رہا تھا کہ روزے کا غصے سے کیا تعلق؟ روزہ تو ہمیں صبر اور برداشت سکھاتا ہے نہ کہ غصہ۔ پتہ نہیں یہ کس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ روزے دار کو غصہ زیادہ آئے گا۔ روزے کی حالت میں یہ غصے کا عمل زیادہ تر ہمارے مرد حضرات میں ہی پایا جاتا ہے۔ ہم کبھی بھی عورت کو نہیں دیکھیں گے کہ وہ روزے کی حالت میں غصہ کرے گی۔ گھر میں یا گھر سے باہر لڑائی جھگڑے کرے گی حالانکہ رمضان المبارک میں سب سے زیادہ ذمہ داریاں عورت پر ہی آتی ہے۔ گھر کو دیکھنا، بچوں کو سنبھالنا ،سحری اور افطاری کا اہتمام کرنا وغیرہ۔ مگر پھر بھی غصہ کرنے میں سر فہرست ہمارے مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک مرد کا پورا دن روزہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح ایک عورت کا تو بھی روزہ ہوتا ہے۔ پھر یہ غصے اور لڑائی جھگڑوں کا عمل صرف مرد ذات میں ہی کیوں؟
رمضان المبارک میں جہاں غصے کو کنٹرول کرنا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے کیونکہ معمولی معمولی بات بھی ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے مرد حضرات رمضان المبارک میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر تیش میں آجاتے ہیں۔ خواہ وہ گھر کے اندر ہو یا گھر سے باہر۔
اگر ہم ایک ڈرائیور کو دیکھے یا دکاندار کو، روزے کی حالت میں سب کا غصہ آسمان کو چوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سب مرد حضرات کے لہجے میں تلخی ہی تلخی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ روزہ ان پر ایک بوجھ ہو یا یہ روزہ کسی اور کے لیے رکھ رہے ہو یا روزہ رکھ کر کسی پر احسان کر رہے ہو۔
اگر بازار میں ایک سبزی فروش یا کسی بھی دکاندار کو دیکھے تو سب کے سب کاٹنے کو دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ سبزی ہو یا پھل یا کوئی اور چیز خریدنے یا ریٹ کم کرنے کا تو کوئی گنجائش ہی نہیں پیدا ہوتا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں سب کے ماتے پر بل ہی نظر آرہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کر پاتا سب مرد حضرات کا کہنا یہی ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں ہمیں غصہ بہت زیادہ آتا ہے۔
یہ غصے والا معاملہ صرف بازاروں میں نہیں ہوتا بلکہ گھر میں بھی عموما یہی حالت ہوا کرتی ہے۔ گھر میں بھی عورتیں بیچاریاں بات کرنا تو دور کی بات قدم بھی آہستہ لیتی ہے۔ گھر میں موجود بچوں کو باقاعدہ تاکید کرتی ہے کہ شور نہیں کرنا ایسا نہ ہو تمہارے ابو یا بھائیوں کو غصہ آجائے۔
یاد رکھیے !کہ رمضان کا مہینہ ہمیں صبر کی تلقین کرتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں صبر اور برداشت جیسا مادہ پیدا کرنے کے بارے میں بتاتا ہے۔ لہذا ہمیں رمضان کے مہینے میں اپنے غصے پر قابو پانا چاہیے۔ صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ لڑائی جھگڑوں اور ہاتھا پائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزیم کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔