بلاگزلائف سٹائل

رمضان اور ہم

   

سندس بہروز                                                                                                                                       

رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے اس کی آمد کی تیاریاں زور و شور پر تھی۔ مائیں سب سے پہلے پورے مہینے کا راشن گھر لے کر آئیں تاکہ رمضان میں وہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور اپنی عبادت میں مصروف رہیں۔ کہیں مختلف قسم کی چٹنیاں بن رہی تھی تو کہیں ادرک لہسن کے پیسٹ تیار ہو رہے تھے۔ یہاں تک کے پیاز ٹماٹر بھی چھوٹے چھوٹے کاٹ کر فریج میں محفوظ کیے جا رہے تھے تاکہ رمضان میں آسانی ہو۔ گھر کی ایک تفصیلا صفائی کا مہم بھی چلا جس میں تمام گھر والوں نے بخوشی شرکت کی کیونکہ رمضان کی آمد آمد تھی۔ سب کو ان کی فرائض سے نوازا کہیں جیسے برتن دھونا، دسترخوان لگانا، چائے بنانا وغیرہ اور اس میں میرے ذمے برتن دھونا آیا جو کہ مجھے سخت ناپسند ہے مگر کیا کریں امی کا حکم تو ماننا پڑا۔

ایک طرف مائیں اس طریقے سے رمضان مبارک کا استقبال کر رہی تھی تو دوسری طرف میرے گھر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں کچھ اور ہی منصوبے بنا رہے تھے۔

کچھ رمضان سیرل کے انتظار میں تھے اور اس کے ٹریلر دیکھ کر اور بھی پرجوش ہو جاتے تو کچھ رمضان کے خصوصی شوز کے لیے بے تاب تھے اور تو اور رمضان سے پہلے ان کی خاموش ملاقاتیں شروع ہوئی اور جب لڈو، کیرم بورڈ اور تاش کے پتے گھر آئے تو ان ملاقاتوں کا سبب معلوم ہوا۔ انہوں نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اچھی پاک فلمیں دیکھنے کا بھی پروگرام بن چکا تھا۔ جب اس پر میں نے ٹوکا تو وہ بولے کہ نہیں دن میں تو ہمارا روزہ ہوگا ہم تو رات کو فلمیں دیکھیں گے جب روزہ کھل جائے گا۔ یعنی یا تو آدھی آدھی رات تک کرکٹ کھیلیں گے یا فلمیں دیکھیں گے اور پھر سحری کر کے سو جائیں گے۔

یعنی کہ رمضان کا مبارک مہینہ نوجوان دن میں سوکر اور رات میں یہ لغو کھیل کھیل کر گزاریں گے اور یہ صرف میرے گھر کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس میں وہ تمام گھر شامل ہیں جن کو میں جانتی ہوں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ لڑکے حجروں میں اکٹھے ہو کر تاش اور لڈو کھیلیں گے تو لڑکیاں گھروں میں بیٹھ کر۔ رمضان میں ان کا معمول یہ ہوگا کہ سحری کے بعد وہ سو جائیں گے پھر اٹھ کر وہ امی سے کھانے کا فرمائشی پروگرام شروع کریں گے اور تراویح کے وقت وہ اتنے تھکے ہوئے ہوں گے اور اتنا زیادہ کھانا کھا چکے ہوں گے کہ ان میں اٹھنے کی بھی سکت باقی نہیں رہے گی۔

سنا ہے کہ رمضان میں اللہ تعالی شیطان کو رسیوں سے باندھ دیتے ہیں تاکہ مسلمان اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ مجھے ہمیشہ سے لگتا ہے کہ ایسا اس لیے ہے تاکہ اللہ تعالی ہمیں بتا سکیں کہ اصل شیطان ہمارے اندر ہے یعنی کہ ہمارا نفس اور میرے نزدیک شاید رمضان المبارک کے اس مہینے کا مقصد بھی ہمیں ہمارے اندر کے شیطانوں سے متعارف کروانا ہے تاکہ ہم ان کو مار کر تزکیہ نفس کر سکیں۔ مگر ہم کھیل کود میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے نفس کا جائزہ لینے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اور اس طرح سال میں آنے والا یہ ایک چانس بھی مس ہو جاتا ہے۔

کیا اپ بھی رمضان اس طرح گزارتے ہیں یا اپ اس میں بھرپور عبادت کر کے ایمان کی تجدید کرتے ہیں؟

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button