بلاگزلائف سٹائل

پاکستان: بڑھتی آبادی، بڑھتے مسائل اور گھٹتے وسائل

 

خالدہ نیاز

اِس وقت ہمارے ملک میں سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے۔ کوئی جیت کا جشن منا رہا ہے تو کوئی انتخابات میں دھاندلی کا رونا رو رہا ہے۔ کوئی تحریک انصاف کو ملک کی بڑی سیاسی جماعت منوانے پر تلا ہے تو کوئی پاکستان مسلم لیگ نون کو۔ کوئی پاکستان پیپلز پارٹی کے گن گارہا ہے تو کوئی عوامی نیشنل پارٹی کی ناکامی کا رونا رو رہا ہے۔
یہ سیاسی گہماگہمی گزشتہ کچھ مہینوں سے جاری ہے۔ 8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہونے کے بعد پنجاب، سندھ اور خیب رپختونخوا میں منتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے جبکہ بلوچستان میں بھی آج اراکین حلف اٹھا چکے ہیں۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں اراکین اسمبلی حلف اٹھائیں گے اور یوں نئی حکومت اپنا کام شروع کر دے گی۔
یہاں ایک سوال بہت اہم ہے، اور وہ سوال ہے عوام کے مستقبل کا۔ اگر دیکھا جائے تو منتخب اراکین الیکشن سے قبل وعدے اور دعوے تو کرتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد وہ عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔
پچھلے دنوں ایک اسلام آباد میں ایک میٹنگ میں شرکت کی جہاں پتہ چلا کہ کون سی پارٹی عوامی مفاد کے لیے کتنا کام کرے گی؛ بڑی سیاسی پارٹیوں کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کے کون کون سے منصوبے ہیں۔ منصوبے تو بہت تھے۔ لیکن اصل مسئلہ عملی کام کا ہے جو کہیں پر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اپنے ملکی حالات کو دیکھتی ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے؛ ہم قرضوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں لیکن سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت آج بھی نہیں۔ آنے والا وقت کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس بارے میں شاید عوام کو فکر ہے نہ سیاستدانوں کو۔
ہماری آبادی اس وقت 24 کروڑ سے زائد ہے اور آدھی تو خواتین پر مشتمل ہے۔ آبادی میں مسلسل اضافہ تو رہا ہے لیکن وسائل میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا۔ آئے روز مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ گلی کوچوں اور چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ کئی لوگ غربت کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تعلیمی ادارے کم ہیں جبکہ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ زیادہ آبادی کی وجہ سے لوگ مختلف قسم کے مسائل میں گِھرے ہوئے ہیں اور تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کو بس زیادہ بچے ہی پیدا کرنے ہوتے ہیں لیکن حمل کے دوران نہ تو ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے نہ آرام کا اور نہ ہی ان کا پراپر چیک اپ ہوتا ہے جس کی وجہ سے زچگی کے دوران سینکڑوں خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ جو بچ جاتی ہیں وہ بھی باقی زندگی بیماری میں گزار دیتی ہیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین کے پاس کوئی ایک اختیار بھی نہیں۔ بچے پیدا کرنے کے حوالے سے ان سے مشورہ نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ یہ خاتون ہی ہے جو جنم دیتی ہے۔ اِس عمل سے اُس کے جسم میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ سارا کچھ اُسے ہی سہنا پڑتا ہے۔ تو پھر بچے پیدا کرنے کا اختیار یا فیصلہ بھی اسی کا ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ اس پر بات بھی نہیں ہوتی۔
زیادہ آبادی کا مطلب ہے زیادہ مسائل۔ اگر زیادہ لوگ ہوں گے تو ان کے لیے زیادہ مکانات چاہیے ہوں گے، زیادہ ہسپتال، زیادہ تعلیمی ادارے، اور زیادہ خوراک کی ضرورت ہو گی۔
سیاسی عدم استحکام اور قرضوں کے بوجھ میں گِھرے پاکستان نے اگر آبادی کو کنٹرول نہ کیا تو مستقبل میں ملک کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ دو ہزار بائیس کے سیلاب نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیونکہ اس سے متاثرہ لوگ اب بھی مسائل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ سیلاب آتا ہے تو ساتھ میں سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے اور پیچھے صرف درد بھری داستانیں چھوڑ جاتا ہے۔
قرضوں کا بوجھ تو حکومت پر ہے لیکن یہ سارا پیسہ عوام کی جیبوں سے نکلے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور آپسی رسہ کشی کو بھلا کر ملکی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہئے تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا سکے جہاں کم از کم بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر کوئی خودکشی کا نہ سوچے، جہاں دو وقت کے کھانے کو کوئی نہ ترسے، جہاں علاج کی وجہ سے مائیں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اور بچے مشقت کی بجائے پڑھنے سکول جائیں۔
لیکن یہ کام صرف حکومت کا بھی نہیں ہے۔ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنا عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اس سلسلے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے، ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ملک کو خوشحال بنانے میں ہم اپنا کیا، اور کس طرح کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button