بلاگزلائف سٹائل

سزا ہمیشہ غریب کو ہی کیوں ملتی ہے؟

 

تحریر: رعناز

کچھ دن پہلے میں شاپنگ کے لیے گھر سے نکلی۔ شام کا وقت تھا۔ روڈ پر گاڑیوں کا ایک ہجوم بنا ہوا تھا۔ ہر گاڑی کا ڈرائیور اس سوچ میں تھا کہ میں سب سے پہلے نکل جاؤں۔ ظاہر ہے شام کا وقت تھا اس لیے ہر کسی کو گھر جانے کی جلدی تھی۔ خیر میں تو اس وقت صرف ایک سوچ میں ہی تھی کہ کپڑے لوں تو آخر کس رنگ کے؟ اچانک میں نے ایک بڑی گاڑی دیکھی جو کہ اس رش اور ہجوم میں بھی بہت تیزی سے چلی آرہی تھی۔ روڈ کے دوسری طرف ایک غریب اور بزرگ بابا جی کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے پاس ٹماٹروں کا ایک ٹھیلا لگا ہوا تھا۔ جہاں اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ادھر یہ بابا جی بھی اس کوشش میں تھے کہ اپنے ٹماٹروں کے ٹھیلے کو روڈ کے دوسری طرف لے کے جائیں۔

اس وقت میرا پورا دھیان اس بابا جی پر تھا۔ بابا جی جیسے ہی روڈ کراس کر رہے تھے تو اچانک وہ بڑی گاڑی ان کے ٹھیلے کے سامنے آگئی۔ خیر ایکسیڈنٹ سے تو بابا جی بال بال بچ گئے۔ مگر وہاں پر موجود ٹریفک پولیس کا جو رویہ تھا وہ بالکل بھی قابل قبول نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ غلطی بابا جی کی ہے اس بڑی گاڑی والے کی نہیں حالانکہ یہ میری اپنی آنکھوں دیکھا حال تھا کہ غلطی اس بڑی گاڑی والے کی تھی۔ وہاں پر موجود ٹریفک پولیس نے تو گاڑی والے کو کچھ بھی نہیں کہا بلکہ اسے جانے دیا اور غریب بابا جی کو ایک طرف کھڑا کیا۔ ان کا ٹھیلا ان سے ضبط کر لیا گیا صرف اور صرف اس بنا پر کہ تم نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ تم نے غلط طریقے سے روڈ کراس کیا ہے۔ بہت دیر تک  بابا جی نے منت سماجت کی۔ تب کہیں جا کرٹریفک پولیس والوں نے بابا جی کو ان کا ٹیلا واپس کیا۔

افسوس اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمیشہ سزا کا حقدار غریب ہی کیوں؟ ہمیشہ گناہ گار غریب ہی کیوں ہوتا ہے؟ ہمیشہ قصور وار غریب کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ ہمیشہ غلطی غریب سے ہی کیوں ہوتی ہے؟ کیا یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں سے کبھی غلطی نہیں ہو سکتی؟

ہو سکتی ہے۔ ضرور ہو سکتی ہے ان سے غلطی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان امیروں کے لیے قانون ہوتا ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے سزا ہوتی ہی نہیں ہے۔ افسوس کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہے جہاں امیروں کی غلطیوں پر پردے ڈالے جاتے ہیں۔ جہاں ان کی غلطیوں کو مٹی تلے ایسے دفن کیا جاتا ہے جیسے کہ یہ غلطی ان سے ہوئی ہی نہیں ہے۔ان کے حق میں جھوٹے گواہوں تک کو لایا جاتا ہے کہ یہ غلطی انہوں نے نہیں کی اور غریبوں کو سزا دی جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں غریب کی غلطی کرنے پر سزا بھی ہے اور قانون بھی۔ مگر افسوس کے ایسا کوئی نظام امیر کے کیس میں نہیں ہے۔ قران پاک میں بھی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے محبت ہے غریبوں سے۔ تو پھر ہمارے معاشرے کے لوگوں کے دلوں میں اتنی  نفرت آخرکیوں؟ ہمارا مذہب اسلام تو ہمیں ہمیشہ مساوات کی درس دیتا ہے۔ کوئی امیر اور غریب نہیں ہے۔ سب انسان برابر ہے۔ کسی بھی امیر کو غریب پر کسی بھی قسم کی فوقیت حاصل نہیں ہے دونوں کے حقوق برابر ہے۔ دونوں ہی انصاف کے حقدار ہیں لیکن ہمیشہ غریب کو سزا ملتی ہے۔

جس طرح اگر ایک غریب غلطی کرے اور اسے سزا دی جاتی ہے تو بالکل اسی طرح امیر کی غلطی کرنے پر بھی وہ سزا کا مستحق ہے۔ اسے بھی ایسی ہی سزا ملنی چاہیے جیسے ایک غریب کو ملا کرتی ہے۔ جتنا اس معاشرے اور ملک پر امیر کا حق ہے بالکل اتنا ہی غریب کا بھی ہے۔ وہ بھی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ آزادی سے محنت مزدوری کر کے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کمائیں۔ اگر اس ملک کے قوانین غریب پر لاگو ہوتے ہیں تو بالکل اسی طرح ایک امیر انسان پر بھی ہونے چاہیے تاکہ سب کو ایک جیسے حقوق ملے۔

رعناز ایک پرائیویٹ کالج کی ایگزام کنٹرولر ہیں اور صنفی اور سماجی مسائل پر بلاگنگ بھی کرتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button