"کتا کچھ دن سے کھانا نہیں کھا رہا”
حمیرا علیم
بعض لوگ زندگی کی بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ دوست، رشتے ناطے، گھر، گاڑی، مال اسباب ، تعلیم، صحت اور فراغت مگر ناشکرے ہوتے ہیں۔ اس لیے بے عملی کا شکار ہو کر ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں لیکن اپنی غلطی کا احساس کر کے اسے سدھارنے کی بجائے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنی ناکامیوں اور مایوسی کا سبب سمجھتے ہیں اور پھر کسی ڈاکٹر، سائیکاٹرسٹ یا عالم کے منتظر ہوتے ہیں جو جادو کی چھڑی گھما کر ان کے سارے دکھ درد دور کر دے۔ حالانکہ جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کے لیے کوشش نہیں کرتے روئے زمین کی کوئی طاقت ان کے مسائل حل کر سکتی ہے نہ زندگی تبدیل کیونکہ معجزے بھی تبھی رونما ہوتے ہیں جب ان کے لیے محنت اور دعا کی جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے نیشنل جیوگرافی کا پروگرام ٹیبو مختلف ممالک میں موجود عجیب وغریب عادات، رسوم اور لوگوں کے بارے میں ہوتا تھا۔ ایک روز اس پروگرام میں امریکہ میں موجود ایسے لوگ دکھائے گئے جو پیدا تو انسان ہوئے تھے مگر وہ خود کو کتا، بلی، شیطان، گھوڑا یا چھپکلی بنانا چاہتے تھے لہذا سرجریز کروا کر اور کاسٹیومز پہن کر جانور بن کر خوش تھے۔ایک کپل ایسا دکھایا گیا جو اپنی آر وی( ری کریشنل وہیکل) میں رہتے تھ۔ے اچانک انہیں سوجھا کہ انہیں شہر چھوڑ کر جنگل میں رہنا چاہیے نہ کوئی کام کرنا چاہیے نہ ہی شہری سہولیات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ لہذا انہوں نے آر وی، جس میں ایک فل آف لگژری گھر کی ساری سہولیات ہوتی ہیں، جنگل میں کھڑی کی اور اپنے جیسے چند لوگوں کے ساتھ وہاں رہنے لگے۔ وہ اسٹورز کے باہر پڑے بنز میں سے پیکڈ فروٹس، سبزیاں ، کپڑے وغیرہ نکال لاتے اور استعمال کرتے ۔مغربی ممالک میں تازہ اشیاء کی بھی ڈیٹ ہوتی ہے اس کے گزرنے کے بعد انہیں بن میں پھینک دیا جاتا ہے اگرچہ وہ قابل استعمال ہوتی ہیں۔ جہاں سے بے گھر افراد یا نشہ کرنے والے اور اس کپل جیسے ناشکرے، ہمارے ہاں پنجابی میں پھٹے ہوئے بھی کہا جاتا ہے، انہیں نکال لیتے ہیں۔
اس پروگرام کو دیکھ کر میں نے سوچا ہوتے نا یہ کسی غریب افریقی یا ایشیائی ملک یا پاکستان میں جہاں ٹیکسز کی بھرمار ہوتی بلز انہیں سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے جہاں دو وقت کا کھانا کھانے کے لالے پڑے ہوتے تو میں دیکھتی کیسے یہ چونچلے کرتے۔ انہیں سوشل ویلفیئر کے نام پر لگی بندھی روزی میسر تھی۔ محلوں جیسے گھر اور آر وی میں آسودہ زندگی سے لطف اندوز ہورہے تھے لیکن شکر تھا نہ صبر چنانچہ کتے بلی اور جنگلی بن کر خوش ہونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
ایسا ہی ہمارے ہاں کے کچھ لوگوں کے ساتھ ہے جو ایلیٹ کلاس کہلاتے ہیں۔ وہ دین سے دور ہوتے ہیں مغرب کے دیوانے اور اس کی تقلید میں اتنے اندھے ہوتے ہیں کہ حرام کو حلال ٹھہرا کر سکون کے متلاشی ہوتے ہیں۔ آئس، کوک، شراب، کریک، ناجائز تعلقات، ڈانس میوزک اور دیگر خرافات ان کے لیے ہائی سوسائٹی کے لوازمات ہوتے ہیں۔ ہر چیز کے ہوتے ہوئے بھی وہ بور اور ڈپریسڈ ہوتے ہیں۔ شوقیہ ڈاکے، قتل و غارت یا خودکشی کی ناکام کوشش جیسے ایڈونچرز کر کے زندگی میں بقول ان کے تھرل لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک ویٹنری ڈاکٹر قصہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک کتے کو لایا گیا اس کی مالکن پریشان تھی کہ کتا کچھ دن سے کھانا نہیں کھا رہاتھا۔ ڈاکٹر نے انہیں کہا دو دن کلینک میں چھوڑ جائیے بالکل تندرست ہو جائے گا۔ جونہی مالکن باہر نکلی انہوں نے پہلے اس کتے کی اچھی طرح پٹائی کی پھر باہر دھوپ میں بٹھا دیا نہ پانی دیا نہ کھانا۔ دو دن بعد مالکن آئی تو کتا بھاگم بھاگ ان کے پاس پہنچا۔ وہ گھر لے کر گئیں اور ڈاکٹر کو فون کر کے شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ اسے ہوا کیا تھا۔ تو ڈاکٹر نے بتایا کہ کچھ نہیں بس ناشکری کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ جب اسے اے سی والے کمرے میں اپنا نرم گداز بستر اور امپورٹڈ فوڈ میسر تھا تو اس کے نخرے بڑھ گئے لیکن جب اسے احساس دلایا گیا کہ اس کی زندگی کتنی پرآسائش ہے تو اسے ان نعمتوں کی قدر ہوئی۔
ان ایلیٹ کلاس والوں کا مسئلہ دراصل بوریت نہیں۔ بے شمار دنیاوی نعمتوں کا بناء کسی جدوجہد کے حصول ہوتا ہے۔اگر انہیں بھی عام انسان کی طرح دووقت کی روٹی، گھر کے کرائے، بلز کی ادائیگی کی ٹینشنز ہوں اور اس سب کے لیے وہ فجر سے عشاء تک مزدوری میں مشغول رہیں اور پھر بھی کوئی نہ کوئی مصیبت باقی رہے تو کہاں کی بوریت کیسا ڈپریشن۔
ایسے تمام سوکالڈ نفسیاتی مریضوں کا علاج یہ ہے کہ انہیں ان کے کمفرٹ زون سے نکال کرکم ازکم چھ ماہ تک کسی دہاڑی دار مزدور کی زندگی گزارنے پر لگا دیا جائے۔ دیکھیے کیسے سارا ڈپریشن ہرن ہو جاتا ہے۔ زندگی میں سکون چاہیے تو کوئی کام کیجئے مصروف رہیے۔کم ہو یا زیادہ شکر کرنا سیکھیں کیونکہ شکر کرنے پر زیادہ ملنے کا وعدہ ہے۔ ورنہ تو چاہے ایک براعظم کے مالک بن جائیں پیٹ اور نیت نہیں بھریں گے۔