بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے پشاور کو پھولوں کے شہر کے نام سے محروم کردیا
کیف آفریدی
پیدل چلنے سے نہ صرف صحت تندرست رہتی ہے بلکہ گاڑیوں کے کم استعمال سے آلودگی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ چند دن پہلے اپنے ایک دوست کے ہمراہ آفس کے ایک دوسرے ساتھی کے ہاں اُن کے والد محترم کی فوتگی پر تعزیت کے لیے جا رہا تھا۔ قریباً 3 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ اول تو گاڑی میں جانے کا ارادہ تھا لیکن پھر سوچا چلو، پیدل چلتے ہیں۔ صدر بازار سے گزر رہے تھے تو گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں دیکھیں۔ رش اتنا تھا کہ فٹ پاتھ کی سائیڈ پر بمشکل چل پا رہے تھے۔ راستے میں اِس بات پر خوشی محسوس کی کہ اچھا ہوا کہ ہم گاڑی میں نہیں آئے ورنہ فیول کا نقصان تو الگ، ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے کم از کم 2 گھنٹے بھی ہمارے ضائع ہونے تھے۔
ہماری گفتگو کا محور بھی یہی تھا کہ پیدل چلنے والوں سے زیادہ گاڑیاں نظر آ رہی ہیں آخر پشاور کا کیا بنے گا؟ کیا ہم اب بھی پشاور کو پھولوں کا شہر کہہ سکتے ہیں؟ پہلے لوگ پیدل زیادہ چلتے تھے اور ان کی عمریں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔ بیماریاں بھی اتنی نہیں تھیں اور یہی وجہ تھی کہ لوگ صحت مند اور تندرست و توانا تھے۔
گاڑیوں کی بھرمار اور ان سے خارج ہونے والا دھواں انسان کے لیے کتنا خطرناک ہے اس کو ہم نظرانداز کرتے رہتے ہیں۔ بحرکیف! ہم وہاں پہنچے، فاتحہ خوانی کی، اور تھوڑی دیر رکنے کے بعد واپسی کی راہ لی۔ ہم جب واپس آ رہے تھے تو اس وقت ہم دنگ رہ گئے کہ صدر بازار میں گاڑیوں کی قطاریں ویسی کی ویسی نظر آ رہی تھیں۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان گاڑیوں میں بیٹھے لوگ کتنی تکلیف سے گزر رہے ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہی گاڑیاں فضائی آلودگی کا بھی سبب بنتی ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور یوں اس شہر کے سبھی باسی طرح طرح کی تکالیف سے دوچار ہوتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہے کہ پشاور میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں انسانی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں لگ بھگ 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ 10 میں سے 9 انسان ایسی آلودہ ہواؤں میں سانس لیتے ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں کی حد سے متجاوز ہوتی ہیں۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس زہریلے اخراج سے دل کی بیماری، پھیپڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں جیسے وبائی امراض جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی لوگوں کے اعصاب، دماغ، گردوں، جگر اور دیگر اعضاء کو طویل المدتی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
یہی نہیں بلکہ اسی آلودگی کے باعث پیٹ میں درد، خون کی کمی، قبض، سر درد، چڑچڑاپن، اور یاداشت کی کمی وغیرہ جیسی بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں۔ نائٹروجن آکسائیڈ بنیادی طور پر موٹر انجنوں سے خارج ہوتی ہے، اِس سے کھانسی، ناک یا گلے میں جلن، سر درد، سینے میں درد، اور بخار ہو سکتا ہے۔
آج کا پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ آئی کیو ایئر کی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے حوالے سے بنگلہ دیش سرفہرست جبکہ پاکستان دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ اسی طرح لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے جبکہ پشاور اس فہرست میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر فضائی آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو پشاوریوں کی اوسط عمر میں ساڑھے تین سے سات سال کی کمی کا خدشہ ہے۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ عوام میں اس حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا کریں کہ قدرتی ماحول زندگی کی بقا کا ضامن ہوتا ہے۔ جب اس قدرتی ماحول کو ایک خاص حد سے زیادہ چھیڑا جائے تو اس کا ردعمل ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے۔ فضائی آلودگی کا کنٹرول انتہائی ضروری ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔