"جب بازار سے گزریں تو لوگ دیکھتے ہی بولتے ہیں وہ دیکھو ہیجڑے جا رہے ہیں”
سعدیہ بی بی
ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے پشاور میں ار ٹی ائی کی ٹریننگ کا انعقاد کیا گیا جس کے لیے میرا نام بھی سلیکٹ کیا گیا تھا اور مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی۔ یہ دو دن کی ٹریننگ تھی۔ میں نے دونوں دن کی ٹریننگ لی اور مجھے بہت کچھ سیکھنے اور دیکھنے کو ملا۔ اس دوران میری ملاقات پاکستان کی بہت بڑی بڑی شخصیات سے ہوئی جن میں کچھ جرنلسٹس تھے، کچھ نجی ٹی وی کے بیورو چیفس اور رپورٹرز شامل تھے۔ ان سب سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ٹریننگ کے پہلے دن ہمیں بڑی تفصیل کے ساتھ ار ٹی ائی اور اس کے اصولوں کے بارے میں بتایا گیا اور ٹریننگ کے دوسرے دن کا ٹاپک ٹرانس جینڈر کے بارے میں تھا کہ ان کو معاشرے میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کیوں ان کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ میرے لیے دوسرے دن کا ٹاپک بہت ہی دلچسپ تھا۔ میں اس کے شروع ہونے کا انتظار کر رہی تھی لیکن یہ سیشن تبدیل کر کے کھانے کے بعد رکھ دیا گیا کیونکہ کچھ مہمانوں نے انا تھا جنہیں انے میں تھوڑا وقت لگ گیا۔
میں نے کھانا کھا لیا تھا اور بس یہی سوچ رہی تھی کہ کب یہ سیشن شروع ہوگا ۔ ابھی سوچ میں ہی گم تھی کہ مہمان ہال میں پہنچ گئے اور پھر سر نے ہمیں اواز دی کہ سیشن شروع ہو رہا ہے اپ سب اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جائے۔ سب اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور سیشن کا باقاعدہ اغاز ہوا۔ میری نظر ان مہمانوں پر پڑی جو کالے رنگ کے بھرکے اور کالے چشمے پہنے خود کو ہر طرف سے ڈھانپ کر بیٹھے تھے۔ جب ان سب نے اپنا تعارف کروایا تو معلوم ہوا کہ یہ سب پہچان چھپانے والے خواجہ سرا تھے۔ کترینا نامی ایک خواجہ سرا تھی جو ایک بہت بڑا این جی او چلا رہی تھی اور باقی سب خواجہ سرا کی گرو بھی تھی۔ کترینا نے میڈیا کی بہت تعریف کی کہ میڈیا انہیں ہر لحاظ سے سپورٹ کرتا ہے لیکن یہ معاشرہ انہیں سپورٹ نہیں کرتا۔
وہ اس معاشرے میں پلنے والے لوگوں کے رویوں سے بہت دلبرداشتہ تھی۔ کترینہ اپنے اس پاس کے لوگوں سے بہت تنگ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ہمیں عجیب ناموں سے پکارتے ہیں "جب بازار سے گزریں تو لوگ دیکھتے ہی بولتے ہیں وہ دیکھو ” ہیجڑے ” جا رہے ہیں، وہ دیکھو ” خسرے ” جا رہے ہیں۔” ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جب ہم یہ سنتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ لوگ اس قسم کے نام لیتے ہیں جن سے ہمیں دکھ ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی انسان کو ان کی مرضی کے نام سے نہیں بلکہ عجیب ناموں سے مخاطب کیا جائے تو انہیں دکھ ہوتا ہے اور غصہ اتا ہے۔
اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو ان کے اپنے نام کے بجائے الٹے ناموں سے مخاطب کرتے ہیں جس سے سننے والے کو غصہ اتا ہے۔ اسی طرح لوگ اگر ہمیں خواجہ سرا بولیں تو ہمیں اس طرح تھوڑی عزت ملے گی نہ کہ ” ہیجڑا ” اور ” خسرہ ” بولنے سے۔ انہوں نے بہت خوبصورت مثال دیتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات لوگ اپنے نام میں سپیلنگ کی غلطی سے غصہ ہو جاتے ہیں اور بھڑک اٹھتے ہیں کے ڈبل ای کی جگہ ائی کیوں لگایا گیا لیکن یہاں تو ہمارا پورا نام بگاڑا جاتا ہے ہم اس لیے چپ ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ معاشرے نے ہمیں پہلے ہی قبول نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنے نام کے لیے اواز اٹھائی تو ہمارا جینا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر کسی کو ہمارا نام نہیں معلوم تو وہ ہمیں ” خواجہ سرا ” کہہ کر پکاریں ۔ ہمیں الٹے ناموں سے مخاطب نہ کیا کریں۔
جس طرح ایک عام انسان کا نام بگاڑا جاتا ہے تو اس کو بہت برا لگتا ہے۔ اسی طرح اگر خواجہ سرا کو الٹے ناموں سے پکارا جائے تو انہیں بھی بہت برا لگتا ہے۔ میرے خیال میں جس کا جو نام ہوتا ہے اسے اسی نام سے پکارا جائےکیونکہ اس کی عزت اس کے نام سے ہوتی ہے۔ خواجہ سراء بھی اس معاشرے کا حصہ ہے انکو ابھی دوسرے انسانوں جیسی عزت اور سہولیات ملنی چاہیے۔
سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔