لائف سٹائل

سیاحوں کی جانب سے مالم جبہ چیئر لفٹ ان دنوں تنقید کی زد میں کیوں؟

 

محمد سلمان

مالم جبہ سوات کا ایک حسین اور پرفضا سیاحتی مقام ہے۔ گرمیوں میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہیں ہزاروں فٹ کی بلندی پر واقع مالم جبہ کی خاص بات یہاں کی بلند و بالا چیئر لفٹ ہے جو ہر سال ملک بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ مالم جبہ کی چیئر لفٹ ان دنوں سیاحوں کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں ہے جس کی بنیادی وجہ چیئر لفٹ کے مین گیٹ میں داخلے کی انٹری فیس 1100 روپے اور ساتھ چیئر لفٹ کا فی کس ٹکٹ 1400 روپے کا مقرر کرنا ہے۔

سوشل میڈیا پر وقفے وقفے سے اسی ایشو سے متعلق ویڈیو وائرل ہوتی رہتی ہیں جس میں سیاح اس بھاری انٹری فیس اور چیئر لفٹ کی زیادہ ٹکٹ کی شکایت کرتے نظر اتے ہیں اور اعلی حکام سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس چیئر لفٹ سے لطف اندوز ہوئے بغیر واپس لوٹ جاتی ہیں۔ 2014 میں
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے ان چیئر لفٹ اور سکی ریزوٹ کو سام سنز کمپنی کو لیز پر دیا ہے اور اسی وقت سے یہی کمپنی ان چیئر لفٹ کو چلا رہی ہے۔

لاہور سے ائے ہوئے ایک سیاح عباس بٹ نے بتایا کہ ٹھیک ہے مالم جبہ ایک انتہائی پرفضا مقام ہے لیکن یہاں کی خاص بات یہاں کی چیئر لفٹ ہے اگر چیئر لفٹ کا ٹکٹ اتنا مہنگا ہوگا تو پھر ایسے میں کون چیئر لفٹ میں بیٹھے گا۔ اس کے علاوہ اگر ایک فیملی میں اٹھ بندے ہیں تو اپ خود اندازہ لگائیں کہ صرف ان کے چیئر لفٹ کے ٹکٹس 10 ہزار روپے سے زیادہ بنتے ہیں لہذا جو کوئی بھی ان چیئر لفٹ کا نظام چلا رہا ہے تو ان کو چاہیے کہ ایسے ریٹ مقرر کرے کہ وہ سبھی کے بس میں ہو۔

اسی طرح پشاور کے ایک اور سیاح وسیم خان نے کہا کہ چیئر لفٹ کے ٹکٹ کے علاوہ یہاں اندر داخل ہونے کی انٹری فیس جو کہ 1100 روپے مقرر کی گئی ہے انتہائی زیادہ ہے اج کل سیر پر جانے کے لیے اگر صرف پٹرول کا خرچہ بھی پورا کیا جائے تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا جلدی ہو سکے ان کے ریٹس میں خاطر خواہ کمی لانی چاہیے۔

مالم جبہ سکی ریزورٹ کے ایک ذمہ دار ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ ہمیں بھی اس بات کا احساس ہے کہ اس کی انٹری فیس زیادہ ہے پر ان 1100 روپے میں انہیں اندر 200 روپے کا مفت کھانا ملتا ہے ایسے میں اگر ایک بندہ چیئر لفٹ کا ٹکٹ خرید لیتا ہے تو پھر اس کی انٹری فری ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی کے اتنے اخراجات ہیں کہ انہیں پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مالم جبہ میں یہی تین مہینے جون جولائی اور اگست میں رش ہوتا ہے جن میں سیاحوں کا انا جانا لگا رہتا ہے اس کے بعد سردیوں یعنی دسمبر اور جنوری میں سیاح برف سے لطف اندوز ہونے کے لیے اتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے سیٹ اپ پر کمپنی نے اربوں روپے خرچ کیے ہیں اس ریزورٹ میں 300 افراد کام کر رہے ہیں جس میں 75 افراد صرف سیکیورٹی کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان 300 افراد کو دو وقت کا کھانا بھی کمپنی کے ذمے ہے کم از کم 10 سے 12 لاکھ روزانہ کا خرچہ ہے جبکہ حکومت کو بھی سالانہ 2 کروڑ 12 لاکھ روپے کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مالم جبہ سکی ریزورٹ کا جی ایم اور کوچ بیرون ملک سے لیا گیا ہے جس کی وجہ سکی میں ان کا سالہا سال تجربہ کا ہونا ہے ان کو ڈالروں میں تنخواہ دی جا رہی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button