بلاگزجرائم

باجوڑ دھماکہ: "میں تو شکر ادا کر رہی ہوں کہ جو بھی ہوا کم از کم بیٹے کی لاش تو دیکھنے کو ملی”

 

نازیہ

باجوڑ میں تو ایک قیامت صغرا برپا ہوئی ہے، شاید ہی کوئی دل رکھنے والا انسان اسے بھول پائے۔ ہر گھر میں ماتم کا سماں ہے۔

ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر ہونے والے خودکش دھماکے نے گویا کہ قیامت ڈھائی ہو۔ ایسا کوئی گاؤں، قبیلہ یا خاندان نہیں ہے جس میں ان کے رشتہ دار وفات یا زخمی نہ ہوئے ہو بلکہ کئی لواحقین اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں۔ ہسپتالوں میں مردہ خانوں میں بعض کی تلاش جاری ہے۔

اپنی ایک دوست سے اس حوالے سے بات کر رہی تھی تو اس نے بتایا کہ پڑوس میں میری امی دو غمزدہ خاندانوں کے گھر گئی تو کہتی ہے کہ وہاں جا کر دل کو چھیرنے والے یہ الفاظ سننے کو ملے۔ "اصل غم تو وہ ہے جب اپ کو اپنے پیاروں کی لاشیں پہچاننے میں دشواری ہو پورا وجود تو نا ملا بلکہ صرف اور صرف جسم کے ٹکڑے ملے اور یہی غم مجھے زندہ لاش بنا دینگی”

"میں تو شکر ادا کر رہی ہوں کہ جو بھی ہوا کم از کم بیٹے کی لاش تو دیکھنے کو ملی ورنہ تا حیات میں یہ افسوس کرتی کہ کاش میں نے اخری بار اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا ہوتا”

ایسے اور بھی بے شمار الفاظ ہیں جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دھماکے تو بہت ہوئے ہیں لیکن باجوڑ کی تاریخ میں یہ ایک ایسا دھماکہ تھا کہ جس میں میتوں کی پہچان  بدن کے ٹوٹوں سے، جوتوں سے یا کپڑوں سے  ہو رہی تھی۔ بلکہ ایک بدقسمت گھرانا تو ایسا بھی تھا جس نے اپنے میت کے صرف ٹانگیں اور جوتے دفنائے۔

ایک گھرانا تو ایسا تھا جس نے ایک ادمی کے صرف کپڑے دفناۓ اور تابوت کے اوپر اس بندے کی تصویر چسپائی۔ اب اپ مجھے بتائے کہ اس خاندان کو اپنے پیارے کی اخری دیدار بھی نصیب نا ہوئی جو تا عمر ان کو روز کے روز رلاۓ گی۔

ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد کچھ بد قسمت لواحقین اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں۔

زیادہ دردناک بات تو تب تھی کہ زخمیوں کو پشاور لایا جا رہا تھا کئی لوگ ادھے راستے میں دم توڑ گئے۔ اگر باجوڑ میں ہسپتال کی صورتحال اچھی ہوتی شاید ہی تھوڑی سہولت ہوتی لیکن نہیں ہم انسانوں کی جان اتنی قیمتی کہاں کہ ہسپتالوں میں سہولیات دی جائے۔

چھوٹا ابوزر

اب اتی ہوں چھوٹے ابوزر پر جو چائلڈ لیبر تھا اور اپنی اس چھوٹی سی عمر میں دل میں اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ چھوٹا ابوزر اگر چائلڈ لیبر نہ ہوتا تو شاید وہ اج حیات ہوتا۔ اس چھوٹی سی عمر میں وہ ایک بڑے ادمی کا کردار ادا کر رہا تھا کیونکہ یہ عمر تو کھیلنے کی ہوتی ہے جبکہ وہ روزی روٹی کے تلاش میں تھا۔ اس رزق کمانے کی خاطر اس کا جسم ٹوٹے ٹوٹے ہوا۔ پتہ ہے اس کے باپ نے ابوزر کو محض کپڑوں سے پہچانا کیونکہ اس کا سر اس کے جسم سے جدا ہو چکا تھا۔

چائلڈ لیبر تو ایک الگ ہی اذیت ہے جو ایک بچے سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے لیکن کم از کم وہ بچہ زندہ رہے تو پھر بھی کوئی بات ہے۔ میری دوست کہہ رہی تھی کہ جیسے دھماکہ ہوا تو میرے بھائی وہاں جائے وقوعہ پر پہنچے تاکہ لوگوں کی مدد کر سکے تو کہتی ہے کہ بھائی نے بتایا کہ ” زخمی شور مچا رہے تھے کہ ہمیں بچاؤ ہمیں بچاؤ ہمیں ہسپتال لے کر جاؤ ۔ اس نے کہا کہ وہاں ایسی لاشیں پڑی تھی کہ کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کا چہرہ اڑ گیا تھا کسی کا پاؤں نہیں تھا کسی کا ہاتھ نہیں تھا بس ایسے ہی اعضا پڑے تھے”

باجوڑ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے دہشت گردی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کہیں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہیں تو کہیں دھماکے ہو رہے ہیں۔ بندہ اخر کس مصیبت کا رونا روئے؟ ہمارے قبائلی لوگ دہشتگردی کے جنگ میں پہلے ہی اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، در بدر ہوۓ ہیں۔ پورا کا پورا انفراسٹرکچر خستہ حال ہے۔ ابھی تھوڑی بہت سانس لی ہے لیکن دوبارہ دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔ ہم اور دہشت گردی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ خدا را خود بھی جیۓ اور اوروں کو بھی جینے دے۔

نازیہ بلاگر ہے جو مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button