بلاگزعوام کی آواز

اولاد نرینہ کے وہ ٹوٹکے جن کا عقلی دلیل سے کوئی لینا دینا نہیں

حمیرا علیم

ہم پاکستانیوں کی حسرت ہوتی ہے کہ ہمارا کم از کم ایک بیٹا ضرور ہو اور اس کے لیے ہم لاکھوں جتن بھی کرتے رہتے ہیں جن میں سے بیشتر مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ کبھی کسی مزار کے مخصوص دنوں میں پھیرے، کبھی مزاروں فقیروں کے دروں پر چڑھاوے، کبھی تعویذ گنڈے تو کبھی ٹوٹکے۔ المناک بات یہ یے کہ کئی لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر بیویوں کو طلاق دے کر بچوں سمیت گھر سے نکال دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین بیٹے کی پیدائش کو اپنی شادی شدہ زندگی کی سیکورٹی کی گارنٹی سمجھتی ہیں اور اس کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہیں جبکہ کچھ لوگ بیٹے کی آس میں بیٹیوں کی لائن لگا لیتے ہیں۔

سائنس اس حوالے سے کچھ بھی کہہ لے بیٹے کی پیدائش میں ایکس اور وائی کروموسوم کے کردار کے حوالے سے بیان کر دے یا بیٹے اور بیٹی کی پیدائش کی ذمہ داری مرد کے کروموسوم پر عائد کر دے مگر ہمارے معاشرے میں لوگ بیٹے کی پیدائش کے لیے طرح طرح کے ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں جن کا عقل یا سائنس سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر ان کے مجرب ہونے کے ان کے سامنے کئی ثبوت سامنے موجود ہوتے ہیں۔

ایسے ہی کچھ ٹوٹکے آج آپ کو بتائيں گے اپنی بیٹی کا نام بشری رکھ لیں۔ کیونکہ بڑی بوڑھیوں کا یہ کہنا ہے کہ بشریٰ کے بعد جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ بیٹا ہی ہوتا ہے تاہم اس معاملے کا کسی عقلی دلیل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اگر ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے قبل جو جوڑا اولاد نرینہ کا خواہشمند ہو کافی پی لے تو اس صورت میں بھی ان کے گھر میں لڑکے کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جو حاملہ عورت زیادہ کھاتی ہیں، عام طور پر حمل کے دنوں میں متلی اور الٹی کی تکلیف کی وجہ سے حاملہ عورت کی غذا کم ہو جاتی ہے، اور ان کو بار بار بھوک لگتی ہوں تو بڑی بوڑھیوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسی عورت کے گھر میں بیٹا ہی پیدا ہوگا۔

یہ ایک اور ایسا ٹوٹکا ہے جس کا عقل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر کچھ افراد اس کو آزمودہ ترین مانتے ہیں۔

لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جو حاملہ عورت حمل کی مدت کے دوران نیم گرم پانی سے غسل کرتی ہے اس کے اثرات سے اس کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بیٹا ہی ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ تمام وہ ٹوٹکے ہیں جو ہمارے اردگرد کے افراد استعمال کرتے ہیں مگر ان کا نہ تو مذہب سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کا سائنس سے کوئی تعلق ہے اور جہاں تک ان کے آزمودہ ہونے کا تعلق ہے تو ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو کبھی تو یہ کامیاب بھی ہو گئے اور کبھی کامیابی سے کوسوں دور بھی رہے۔ اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ بیٹے اور بیٹی کا فیصلہ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔

قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ اللہ جسے چاہے بیٹے دے جسے چاہے بیٹیاں یا دونوں دے اور چاہے تو کسی کو اولاد ہی نہ دے۔ مگر افسوس ہم دنیاوی خواہشات کے حصول کے لیے اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ انسانوں، مردوں، مزاروں اور دیگر اشیاء کو اللہ کی صفت خالق میں شریک مان کر ان سے رجوع کرنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیے بچے کی صنف کا تعین اسی وقت ہو جاتا ہے جب نطفہ قرار پاتا ہے اس کے بعد دنیا کی کوئی سائنس یا کسی کی کوئی کرامت اس کی صنف تبدیل نہیں کر سکتی، اس لیے کسی کے دعووں سے بے وقوف مت بنیے اور بیٹا یا بیٹی جو بھی ہو اس کی پیدائش پر شکر ادا کیجئے کیونکہ دنیا میں لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور بیٹی کے لیے بھی ترستے ہیں۔

اولاد کے حصول کے لیے غلط اور غیر شرعی طریقے استعمال نہ کریں، سب سے پہلے ڈاکٹرز سے کنسلٹ کریں میاں اور بیوی دونوں ٹیسٹ کروائیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ مسئلہ ہمیشہ عورت میں ہی ہو۔ مجھے یاد ہے ایک روز میں اپنی گائناکالوجسٹ کے پاس گئی وہاں ایک خاتون ان کی منتیں کر رہی تھیں کہ آپ کی دوا اور علاج سے میری دیورانی جیٹھانی سب کے بچے ہوئے ہیں مجھے بھی کوئی دوا دے دیجئے جس پر ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ ان کے شوہر میں ایک پرسنٹ بھی سپرمز نہیں ہیں اس لیے کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔

ان خاتون کے جانے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی شادی کو سترہ سال ہو گئے لیکن پہلے ان کے شوہر اپنا ٹیسٹ کروانے کو تیار نہیں تھے۔ نجانے اس خاتون نے ان سترہ سالوں میں کتنی بار بانجھ ہونے کا طعنہ برداشت کیا ہو گا جب کہ قصور سارا اس کے شوہر کا تھا جس میں کمی تھی۔

سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ آئی وی ایف کے ذریعے 70 سالہ بانجھ بڑھیا بھی ماں بن سکتی ہے اس لیے کوئی مسئلہ ہو تو اس کا علاج کروائیے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button