بلاگزعوام کی آواز

‘برابری کا مقصد یہ نہیں کہ عورت کرین چلانا شروع کر دیں’

علیباء عبدالشکور

جب ہم حقوق نسواں میں برابری کی بات کرتے ہیں تو وہ نابغہ روزگار، جو پدرشاہی نظام کے علمبردار ہوتے ہیں اور اپنے اندر عورت دشمنی لیے پھرتے ہیں لیکن برملا اظہار نہیں کرسکتے، کہتے ہیں کہ مرد و عورت کے بیچ برابری قدرت کی دین نہیں ہے اور یہ کہ مرد و عورت جسمانی یا حیاتیاتی لحاظ سے برابر نہیں لہذا برابری والی بات غیر معقول ہے۔ اصل میں وہ عورت کی آزادی اور اپنے پدر سری نظام کے خاتمے سے ڈرتے ہیں تبھی اس کو کبھی مذہب سے جسٹیفائی کرتے ہیں اور کبھی ایسے حیاتیاتی جواز نکالتے ہیں۔

برابری کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ عورت بھی مردوں کی طرح کرین چلانا شروع کردیں، ٹرک چلائے، پہاڑ سے کھدائی کریں، یا پُل سڑکیں بنانے لگے۔ برابری کا مطلب عورت کا مرد بننا نہیں ہے بلکہ برابری کا مطلب اپنے جسم اور زندگی پر اپنے اختیار کی برابری ہے، مواقعوں opportunities کی برابری۔

مثلاً جب بھی ایک مرد چاہے اپنے مرضی کے کپڑے پہن سکتا ہے، اپنے مرضی کا کھیل کھیل سکتا ہے اپنے مرضی سے کیریر چُن سکتا ہے، اپنے مرضی کی پڑھائی کرسکتا ہے جبکہ عورت ہر فیصلے سے پہلے مرد کی اجازت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ اس کے لئے sex roles جنسی رویے بھی اس مردانہ نظام نے ایسے وضع کیے ہوتے ہیں جو اسے تقدس، غیرت، حیا، اور لاڈ کے نام پر اپنے زندگی پر اختیار سے روکھے رکھتے ہیں۔

اگر عورت کو بھی ایسے ہی مواقع میسر ہو اور سب سے بڑ کر انہیں اسے چننے کا اختیار حاصل ہو تو وہ جو مرضی چاہے کاروبار یا کیریر چن لے اس کی مرضی، چاہے وہ کرین چلانا چاہے، سڑک بنوانا چایے، کرکٹ، فٹبال، یا کبڈی کھیلنا چاہے یہ اس کی مرضی ہوگی۔ اب سب کو اپنے وجود اور رجحانات کا پتہ ہوتا ہے کوئی برابری حاصل کرنا اس لئے نہیں چاہتا کہ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنا شروع کردے۔ برابری اختیار کی ہونی چاہئے جیسے مردوں کو حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً میں بطور ایک مرد جب چاہوں پہاڑوں پر کھدائی والا کام کرسکتا ہوں، لیکن مجھے اپنے جسمانی استطاعت کا بھی پتہ ہے کہ مجھ میں وہ استطاعت نہیں ہے تو میں نہیں کررہا، لیکن جب بھی چاہوں کرسکتا ہوں کیونکہ وہ اختیار مجھے حاصل ہے۔

غرض کہ جسمانی فرق کوئی معقول دلیل نہیں برابری والی مطالبے کے خلاف۔ اگر جسم والی بات ہی ہے تو مرد بھی جسمانی طور پر یکساں نہیں ہوتے جیسے میں نے کہا کہ میں پہاڑ پر کھدائی والا کام نہیں کرسکتا تو کیا میں اب مرد نہیں رہا؟ ایسا نہیں ہے کیونکہ مجھے اپنے جسمانی استطاعت کا پتہ ہے لیکن مجھے اختیار حاصل ہے، اور یہ اختیار عورت کو بھی حاصل ہونا چاہیے، پھر اسے بھی اپنے جسم اور رجحانات کا پتہ ہے وہ جو کام چاہے کریں، چاہے وہ کنواں کھودنا ہی کیوں نہ ہو۔

جسمانی قوت مردوں کی بھی برابر نہیں ہوتی تو عورت کیسے ایسا مطالبہ کرسکتی ہے۔ عورت مرد بننا نہیں چاہتی، بلکہ اپنے وجود پر اختیار چاہتی ہے جو ہر انسان کا حق ہے۔ ویسے کسی کام پر یہ نہیں لکھا ہوا ہوتا کہ یہ صرف مرد کرسکتے ہیں اور یہ عورت نہیں، یہ وہ انسان خود اپنے مرضی سے فیصلہ کریں گا۔

 

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button