کنفیوژ ہوں کہ نظر صرف ہمیں ہی کیوں لگتی ہے؟
سدرہ ایان
نظرِ بد اونٹ کو ہانڈی تک اور انسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے، یہ بات بچپن سے سننے میں آ رہی ہے لیکن میں ہمیشہ سے اسی سوچ کو لے کر کنفیوژ رہی ہوں کہ نظر صرف ہمیں ہی کیوں لگتی ہے؟ ہمارے لوگ بچوں کے گلے میں تعویذوں کا گچھا اور آنکھوں میں ایک ٹرک سرمہ ڈال کر پیر بابا کا لُک دیتے ہیں تاکہ انہیں نظر نہ لگے۔
لیکن یہاں میں ہمیشہ کنفیوژ ہو جاتی کہ بڑے بڑے سپر سٹارز ہیں جن کے بچے چاند تاروں کی طرح چمکتے ہیں انہیں نظر کیوں نہیں لگتی؟ یا سب کہتے ہیں کہ نظرِ بد ہی نہیں اچھی نیت سے دیکھو تو بھی نظر لگ جاتی ہے اس لیے سب سے زیادہ والدین ہی کی نظر لگتی ہے۔ اور یہ بات جب میں اپنی بہن کے منہ سے سُن رہی تھی تو میں نے ایک ‘آئی برو’ اٹھا کر ممی کو ایک نظر دیکھا جو کہ مسکرا رہی تھیں۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں تنبیہہ دی کہ ممی مجھے اچھے انٹینشن سے نہ دیکھا کریں!
خیر میں اس بات پر زیادہ کنفیوژ تھی کہ نظر اچھے انٹینشن سے لگتی ہے تو پھر کیا ہم اپنوں سے ہی اپنی خوشیاں چھپاتے پھریں؟ جو ہماری خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں ان کے ارادے ہمارے لیے بڑے نیک ہوتے ہیں تو کیا ہمیں ان کی نظر سے بچنے کے لیے ان سے اپنی باتیں چھپا لینی چاہئیں یا گلے کو تعویذوں کا حجرہ بنا لیں، بچوں کی طرح آپ اپنے چہرے پر کالک مل لیں؟
یہاں ایک اور بات بھی کنفیوژ کر رہی ہے کہ چہرے پر کالک ملنے سے نظر نہیں لگتی؟ تو کیا اگر میں اپنا گھر لوں، گاڑی خرید لوں اور اگر اپنے چہرے پر کالک مل لوں تو نظرِ بد سے بچ جاؤں گی؟
اگر نظر اچھے انٹینشن سے لگتی ہے تو پھر یہ نظر بد کیوں کہلاتی ہے؟ ہاں مجھے یہ معلوم ہے کہ نظر لگنا حق ہے اور اس سے بچنے کے لیے ہم قرآن کی آخری دس سورتیں پڑھ کر پانی پر دم کر کے پیتے ہیں لیکن مجھے اس چہرے پر کالک ملنے کی اور گلے میں تعویذ ڈالنے کی لاجک سمجھ نہیں آتی۔
کئی جگہوں میں ایسا دیکھا کہ بچے پر ”تھوف، تھوف” کر کے خواتین کہتی ہیں کہ بچے کو نظر لگی ہے یا اگر کوئی کسی کے بارے میں بات کرے اور وہ بندہ یا بچہ بیمار ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ اسے فلاں کی نظر لگی ہے اس سے کہو کہ ناڑے سے دھاگہ نکال کر اس بچے کے سامنے جلائے تاکہ اس کی نظر بد ختم ہو جائے۔ اب سمجھ یہ بھی نہیں آ رہی کہ نظر اور تھوک، کالک، ناڑے کے دھاگے اور گلے میں دھاگوں کا آپس میں کیا کنکشن ہے؟
سٹیٹس لگاؤ تو اچھے انٹینشن والوں کا ریپلائے آتا ہے کہ ڈیلیٹ کرو نظر لگ جائے گی، برے انٹینشن والے تو ریپلائے دینے سے رہے، خوشی کا اظہار کرو تو مت کرو نظر لگ جائے گی، کوئی کامیابی ملے تو مت بتاؤ نظر لگ جائے گی، آپ جو بھی کرو ساتھ میں آپ کو اسی وقت تنبیہہ دی جاتی ہے کہ مت کرو، مت بتاؤ، مت دکھاؤ نظر لگ جائے گی، یا تو ان سب کی بینائی کمزور ہوتی ہے اور یا پھر سب کی نظریں لگتی ہیں۔
میں نے اچانک سے خوشیوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے، سیڑھیاں چڑھنے والوں کو پھسلتے دیکھا ہے، آسماں میں اڑنے والوں کو زمین پر پٹختے دیکھا ہے، اگر یہ سب واقعی نظر بد کی وجہ ہے تو نظر بد بہت ہی خطرناک چیز ہے۔
میری آنکھوں کے سامنے ایک خاتون کے بارے میں کہا گیا کہ فلاں کے تو بس سارے ارماں پورے ہو گئے، اس کے دل میں تو کوئی تمنا رہی ہی نہیں اور ٹھیک چوتھے روز ان کا جوان بیٹا اچانک مر گیا اور چھوٹے بیٹے کی شادی ہوتے ہوتے رہ گئی۔
میں نے اپنی ٹیچر کی بیٹی کو دیکھا جو کرسی سے کھیل رہی تھی، میں خوشی سے چلآئی اور ٹیچر سے کہا ارے مِس وہ دیکھیں اور اُن کی بیٹی گِر گئی۔
تو اس خاتون کے انداز میں رشک تھا، شائد حسد بھی اور اس بات کے پورے تین دن بعد ”مینشنڈ” خاتون کا 29، 30 سال کا جواں بیٹا مر گیا۔ اور میں نے خوشی کا اظہار کر کے ٹیچر کی بیٹی کو دیکھا اور وہ گر گئی۔ اور یہاں پھر سے میں کنفیوژ ہو گئی کہ اچھے انٹینشن سے نظر لگنی ہی ہے لیکن جو دل اچھے جذبات نہیں رکھتے ان کی نظر بھی میں نے لگتی دیکھی ہے لہذا ٹھیک کہتے ہیں لوگ:
سفر کریں کسی کو نہ بتائیں
محبت کریں کسی کو نہ بتائیں
کیوں کہ
لوگ خوبصورت چیزوں کو برباد کر دیتے ہیں…!