ملک علی نواز
کئی ہفتوں کی قیاس آرائیوں کے بعد بالآخر پاکستان کو نیا آرمی چیف مل ہی گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ فیصلوں سے ہٹ کر اس بار سنیارٹی کے اصول پر عملدرآد کرتے ہوئے ایک اچھی روایت کی طرح ڈالی ہے اور چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدے دو سینئر ترین جنرلز کو سونپے گئے ہیں۔ جنرل سید عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا ہے جو کہ نظریاتی طور پر فوجی درجہ بندی میں سب سے اعلیٰ ترین عہدہ ہے لیکن حقیقت میں رسمی ہے اس لیے سب کی نظریں آنے والے آرمی چیف پر ہیں جنہوں نے آج (29 نومبر) کو سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے باضابطہ طور پر کمان کا ڈنڈا لے کر پاک فوج کی قیادت سنبھال لی ہے۔
کسی بھی دوسرے ملک میں آرمی چیف کی تقرری ایک معمول کا معاملہ ہوتا ہے لیکن یہ پاکستان ہے جہاں فوج نے، جیسا کہ سبکدوش ہونے والے سربراہ نے بھی اعتراف کیا، ہمیشہ سے ملک کی سیاست میں اپنا ایک، اور فیصلہ کن، کردار ادا کیا ہے لہٰذا یہ فطری امر تھا کہ مذکورہ تقرری میں سبھی نے گہری دلچسپی لی۔
درحقیقت حکومتی وزراء سمیت بہت سے لوگ اس بات پر قائل تھے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے لانگ مارچ کا اصل مقصد آرمی چیف کی تقرری کو متاثر کرنا تھا، بہ الفاظ دیگر اس پر اثرانداز ہونا تھا۔
اب تک کے معاملات کو دیکھ کر یہ پوری طرح واضح ہے کہ جہاں تک نئے آرمی چیف کے انتخاب کا تعلق ہے حکومت غالب رہی ہے۔ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف اور جرنیلوں کا ایک گروپ جنرل عاصم کو اعلیٰ عہدہ ملنے کے حق میں نہیں تھا۔ انہوں نے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کی طرف اشارہ کیا جو کمانڈ کی تبدیلی سے دو دن پہلے آ رہی تھی تاہم حکومت اپنے موقف پر قائم رہی۔
اور اگر مسلم لیگ (ن) کے ذرائع پر یقین کیا جائے تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے واضح کیا تھا کہ حکومت ان کے نامزد کردہ امیدوار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ اس طرح حکومت اپنی پسند کے آدمی کو آرمی چیف مقرر کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ دوڑ میں شامل بعض افراد اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ اور یہ رپورٹس اس وقت درست ثابت ہوئیں جب لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اپنی طے شدہ ریٹائرمنٹ سے قبل مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ دونوں آرمی چیف کے عہدے کے لیے تنازعہ میں تھے۔
جنرل عاصم نے ایک نازک موڑ پر فوج کی کمان سنبھالی ہے؛ پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، معیشت جھلس رہی ہے اور فوج کے عوامی امیج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں عسکریت پسندی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور بھارتی جرنیل لائن آف کنٹرول کو پار کرنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ جنرل عاصم کا کام پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود نئے آرمی چیف کے لیے سب سے بڑا چیلنج فوج کا عوامی امیج بحال کرنا ہے۔ جنرل باجوہ کی توسیع شدہ مدت کے دوران سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، پہلے مسلم لیگ ن کی طرف سے جب وہ اپوزیشن میں تھی، اور پھر عمران خان کی طرف سے جب اپریل میں ان کو گھر کا راستہ دکھایا گیا۔
آرمی چیف کی نامزدگی میں حکومت کے لیے ایک اہم بات یہ تھی کہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ ہو۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت نئے آنے والے آرمی چیف سے توقع رکھتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اس تناظر میں دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے، اگلے انتخابات کے شیڈول سمیت سیاسی فیصلے سویلین حکومت کو کرنے دیں گے۔
جنرل عاصم ایک پیشہ ور سپاہی کے طور پر شہرت رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان جرنیلوں میں سے ایک ہیں جو فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں۔ حکومت کو امید ہے کہ وہ اب اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
فوج میں کمان کی تبدیلی نے ماضی میں تبدیلی کی امیدیں جگائی ہیں۔ جنرل کیانی، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے بہت سارے وعدوں کے ساتھ اپنے دور کا آغاز کیا۔ لیکن ان کا کریئر مثبت نوٹ پر ختم نہیں ہوا، سوائے جنرل راحیل کے جنہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے انہیں توسیع نہ دینے سے انکار کی بدولت وقت پر اپنی وردی اتار دی تھی۔
اپنے پیشروؤں کی طرح جنرل عاصم بھی اتنے وعدوں کے ساتھ اپنے دور کا آغاز کرنے کو تیار ہیں۔ سیاسی و معاشی اور سیکورٹی سمیت اندرون و بیرون ملک وطن عزیز کو جن جن چیلنجز کا سامنا ہے آرمی چیف ان چیلنجز پر قابو پانے میں کہیں فعال تو کہیں ”غیرفعال” رہتے ہوئے ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا وہ اپنی مدت کے اختتام پر اپنے سینئرز سے مختلف ثابت ہوں گے یا نہیں؟