”تیرا اپنا گھر نہیں جو ماں کے گھر ڈیرہ جما لیا ہے؟”
شمائلہ آفریدی
”گردوں کی مریضہ ہوں، سسرال والوں نے مجھے یہ کہہ کر علاج کیلئے اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا کہ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم تمھارا علاج کر سکیں، صحت مند ہو کر ہی واپس آنا، لیکن میرے آنے سے میری بھابیاں بھائی خوش نہیں ہیں، رشتہ دار بھی طنز کرتے ہیں کہ تیرا اپنا گھر نہیں ہے جو ماں کے گھر ڈیرہ جما لیا ہے؟”
ناہید اپنی والدہ کو اپنی درد بھری کہانی بیان کر رہی تھی جسے میں سن رہی تھی۔ وہ سوال کر رہی تھی کہ اس کیلئے ماں باپ کا گھر نہیں، سسرال میں کوئی ہمدردی رکھنے والا نہیں، آخر ایسی کون سی جگہ ہے جہاں مجھے اپنا سمجھ کر قبول کیا جائے گا؟
یہ صرف ناہید کا نہیں بلکہ پاکستانی سماج میں ناہید جیسی ہزاروں عورتوں کا قصہ ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو شعور کی آنکھ کھولتے ہی اس کے دل و دماغ میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ جس گھر میں اس نے آنکھ کھولی ہے یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہے، دوسرے گھر میں جانا ہے، بیٹی اپنے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرتے تے بڑی ہو جاتی ہے، ان کا کام اپنا سمجھ کر کرتی ہے، ایک ذمہ دار بیٹی کی طرح پورے گھر کی ذمہ داریاں سمبھالتی ہے لیکن اس بیٹی کے کچھ ارمان بھی ہوتے ہیں جو وہ پورا کرنا چاہتی ہے، اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ ارمان شادی کے بعد سسرال میں پورے ہوں گے ماں باپ کا گھر میں نہیں ایسے میں وہ ان کی خواہش پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے۔
بیٹی کا گھر کون سا؟
بیٹی جوان ہو کر ماں باپ کے گھر سے شادی کر کے اپنے ارمان پورے کرنے کا خواب لے کر سسرال آتی ہے تو یہاں پر معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے، اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ گھر تو اس کے شوہر اور ساس کا ہے جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنی مرضی نہیں چلا سکتی۔ یہاں سے زندگی کا ایک نیا موڑ شروع ہوتا ہے جہاں اسے پہلے دن ہی بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے من کا کوئی کام نہیں کر سکتی کیونکہ یہ اس کا سسرال ہے۔ اس طرح وہ پوری زندگی سسرال کی خدمت کر کے یہاں بھی اپنی خواہشات کو قربان کر دیتی ہے لیکن زندگی بسر کرتے ہوئے لڑکی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے یا وہ اپنے گھر کے لوگوں کی خواہشات اور امیدوں پر پورا نہ اتر پائے تو بات بات پر اس کو گھر سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ بہو بیمار ہو جائے تو علاج کیلئے اسے ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
لڑکی کی بدقسمتی دیکھئے کہ جب وہ ماں باپ کے گھر آتی ہے تو بھابی بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے طنز کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں لڑکی سوال کرتی ہے اور شدت سے اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ آخر میرا گھر ہے کون سا؟
اسلام میں خواتین کا مقام
قرآن مجید میں عورتوں کے مقام اور ان سے حسن سلوک کے بارے میں کئی آیاتِ ربانی موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں ہو یا بہن، بیوی ہو یا پھر بیٹی، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
ارشاد ربانی ہے: اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔ (سورۃ النساء) اس بناء پر انسان ہونے کے ناطے مرد عورت سب برابر ہیں۔ قرآن پاک کے علاوہ کئی احادیث میں بھی عورتوں کے حقوق، فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے۔ خاتم النبین حضرت محمدﷺ نے عورت کے وجود کو دنیا میں خوش بختی کا باعث قرار دیا ہے۔
ایسی بہت سی خواتین بھی یقیناً موجود ہیں جن کے شوہر انہیں یہ احساس تحفظ فراہم کرتے ہیں، وہ اپنی مرضی کی مالک ہوتی ہیں، گھر میں ان کا اختیار چلتا ہے، وہ خود کو سسرال میں منوا لیتی ہیں لیکن دوسری طرف اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو دوسروں کے اختیار میں زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں۔ اگر کہیں وہ شوہر سسرال والوں کی مرضی کے بغیر کچھ کریں تو اس کی مرضی اس کے لئے لاتعداد مسائل کھڑی کر سکتی ہے۔ وہ حقوق جو اسلام نے بیٹی بہو کو دیئے ہیں وہ ان سے محروم رہتی ہے۔
جھونپڑی کی خواہش
بیٹی کا سفر یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ لڑکی ایسے ہی زندگی بسر کر رہی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ خود ایک ساس بن جاتی ہے تو وہی گھر اس کے بیٹوں اور بہوؤں کا ہو جاتا ہ،ے وہاں بھی اس کو وہ عزت نہیں ملتی جو وہ چاہتی ہے۔ اس کے بیٹے بھی بیویوں کے ہو جاتے ہیں اور اس طرح بچپن سے اپنے گھر کے نام پر طرح طرح سے پیس کر رکھی جانے والی یہ لڑکی زندگی کے صحرا میں تنہا اور ششدر کھڑی یہ سوچتی رہ جاتی ہے کہ کاش! کسی جنگل میں ایک جھونپڑی ہی ہوتی جسے وہ اپنا گھر اپنا ٹھکانہ قرار دے سکتی، جہاں وہ اپنے ارمان پورے کر سکتی، اپنی مرضی سے جی سکتی اور کوئی بھی ایسا نہ ہو جو یہ کہے کہ یہ گھر میرا ہے۔