کیا واقعی ٹی وی ڈرامے اور نیوز چینل ہماری نئی نسل کو دین سے متنفر کررہے ہیں ؟
حمیراعلیم
لمحہ فکریہ ہے کہ کیسے ہمارے ڈرامے اور ٹی وی چینلز ہماری نئی نسل کو دین سے متنفر کر کے ناچ گانے عشق عاشقی اور سازشوں میں مصروف رہنا سکھا رہے ہیں۔ہر ڈرامے میں بہنیں، کزنز، سہیلیاں لڑکی کو کسی نہ کسی کزن، دوست کے بھائی یا منگیتر کی سچی محبت کا احساس دلا دلا کر اسے حرام کاری پہ آمادہ کر رہی ہوتی ہیں۔
ہر ڈرامے میں سسرالی رشتے داروں کو خصوصا خواتین کو چڑیلوں کے طور پہ پیش کیا جا رہا ہے جنہیں سوائے بہو اور بھابی کے گھر کو اجاڑنے، بیوی او شوہر کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے طلاق کرونے کے علاوہ اور کوئی ہی نہیں ہوتا جبکہ ہر حرام چیز فروع دینا اور ہر حلال سے دور کرنا ہی ہمارے میڈیا کا اولین مقصد بن چکا ہے۔
میں آج مختلف ڈراموں کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو ٹی وی پر خبرنامے اور ٹاک شوز کے نام سے پیش کیے جاتے ہیں،خبرنامہ شروع ہوتا ہے تو ایک المناک سین سے جس میں عوام پر مہنگائی کا بم پھوڑ دیا جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ساس نندیں بہو پہ ظلم کے پہاڑ توڑتی ہیں حکومت عوام کو مہنگائی کی مار مارتی ہے اگلی خبر اپوزیشن اور حکومتی وزراء کی بحث و تکرار کی ہوتی ہے جس کا مقصد ملکی سالمیت یا کسی عوامی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اپنی ذات پہ لگے الزامات سے بری الذمہ ہونا اور ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنا ہوتا ہے۔
پھر دو چار حادثات کی، جنگوں کی خبریں اور آخر میں کھیل کی دنیا میں ہونے والے کارناموں کا چرچا دیکھا جاتا ہے لیکن ان گھسی پٹی خبروں میں کبھی بھی کوئی خوشخبری سننے کو نہیں ملتی بالکل ایسے ہی جیسے کہ شیکسپیئر کا کوئی ٹریجک ڈرامہ ہو۔
اب آئیے ٹاک شوز کی طرف جس میں ہمارے پڑھے لکھے تجربہ کار صحافی حضرات کچھ حکومتی نمائندگان اور کچھ اپوزیشن کے لوگوں کو مدعو کرتے ہیں ان سے کوئی ایسا سوال کرتے ہیں جس پہ وہ لڑنے مرنے پہ تل جاتے ہیں ایک دوسرے پہ الزام تراشی کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ہاتھا پائی بھی ہو جاتی ہے جبکہ اینکر صاحب پھوپھو کیطرح تیلی لگا کر سائڈ پہ ہو کہ تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں آگ ذرا بجھتی نظر آتی ہے تیل چھڑک کر اسے اور بھڑکا دیتے ہیں۔( پھوپھو کا ذکر محاورہ کیا گیا ہے مقصد کسی رشتے کی دل آزاری نہیں کیونکہ میں خود بھی پھوپھو ہوں اور جانتی ہوں کہ سب پھوپھو ایسی نہیں ہوتیں) اس ڈرامے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ خواتین و حضرات جو آن اسکرین لائیو پروگرامز میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں وہ بریک میں چائے کافی پہ بڑے دوستانہ انداز میں گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ اکثر ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ایک دوسرے کے جانی دشمن وزراء اپنے بچوں کی شادی کی تقریبات میں دلی دوست بنے ہوتے ہیں وہی اینکر جو اپنے پروگرام کی ریٹنگز بڑھانے کیلئے انہیں لڑا رہے ہوتے ہیں حقیقی زندگی میں ان کو ملانے کیلئے مڈل مین کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
ان ڈراموں کا مقصد صرف اور صرف عوام کو ٹینشن دینا اور اسے فرسٹریٹ کرنا ہوتا ہے،ایک ایسا سیاستدان جو اپنے دور میں کرپشن کے پہاڑ کھڑے کر چکا ہوتا ہے نہ تو نیب کو اور نہ ہی ان اینکرز کو اس دوران کچھ خبر ہوتی ہے سب آنکھ کان بند کیے ہوتے ہیں لیکن اس کے جاتے ہی اس کی کرپشن کی وہ وہ کہانیاں دکھائی جاتی ہیں کہ بندہ حیران پریشان ہو جاتا ہے۔
اس ڈرامے کا کلائمکس یہ ہوتا ہے کہ ہماری عدالتیں اس کو باعزت بری کر دیتی ہیں وہ کرپٹ انسان اپنے آبائی وطن دوبئی، لندن ،امریکہ یا کسی مغربی ملک میں مزے سے زندگی گزارتا ہے اور ہماری برسر اقتدار پارٹی سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتی رہ جاتی ہے۔
ان سب ڈراموں سے حکومت، منسٹرز، اپوزیشن، اینکرز، ایکٹرز، پروڈیوسرز سمیت ٹی وی چینلز تو خوب کما رہے ہیں اور اپنے مقاصد بھی بخوبی پورے کر رہے ہیں لیکن عوام اس سب کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور معاشرے میں زوال بڑھتا جا رہا ہے ہر حرام کام رواج پاتا جاتا رہا ہے اور حلال اجنبی ہوتا جا رہا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر عوام کو اپنی فرسٹریشن اور ٹینشنز کا خاتمہ کرنا ہے تو اسے ہر قسم کے الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا سے دور رہنا چاہیے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں !