ٹریفک جام اور حادثات: کیا ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں؟
تارا اورکزئی
ہم اکثر حکومت سے ہی گلے شکوے کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتی لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم خود اس ملک کی ترقی کے لیے کیا کررہے ہیں یا ملکی قوانین پر کتنا عمل کرتے ہیں، یہی لوگ جب دوسرے ممالک جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں چاہے وہ ٹریفک کے ہو یا کوئی اور لیکن اپنے ملک میں پرواہ ہی نہیں کرتے کہ یہاں سب کچھ چلتا ہے۔
ہمارے ہاں شہروں میں روزانہ ٹریفک جام ہوتا ہے جس کی ایک اہم وجہ عوام کی جانب سے ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنا ہے، ون وے ہوگا تو لوگ دونوں طرف سے روڈ کو استعمال کررہے ہوں گے، سگنلز کی پروا کوئی بھی نہیں کرتا اور سب سے بڑی بات سب کو جلدی جانے کی پڑی ہوتی ہے۔ اکثر جب ہم ڈیوٹی پر لیٹ پہنچتے ہیں تو ہمارے افسران جب لیٹ آنے کی وجہ پوچھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ٹریفک کی وجہ سے ہم لیٹ ہوگئے افسران کا یہی جواب ہوتا ہے کہ یہ تو ہماری عوامی اور ہماری پوری قوم کا مسئلہ ہے لوگوں کو وقت پر نکلنے چاہیے تاکہ وقت پر پہنچ جائیں جب ہم کو خود پتہ ہے کہ یہ ہماری عوامی مسئلہ ہے تو ہم کیوں اس کو ٹھیک نہیں یہاں تک ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
جب بھی ہم گاڑی میں سفر کرتے ہیں جو بھی ڈرائیور ہو تو عجیب قسم کی گالیاں دیتا ہے اس لئے گالیاں دیتا ہے کہ ایک ایک تو رش ہوتا ہے گاڑیوں کا دوسرا پیچھے سے گاڑی آگے جانے کی کوشش کرتی ہے اکثر گاڑی کو پیچھے دکا بھی دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں گاڑیوں کے مالکان کا آپس میں جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کو جلدی ہنچنے کی فکر ہوتی ہے لیکن جو لو کل ڈرائیور ہوتے ہیں جو اڈے سے گاڑی چلاتے ہیں وہ ایک سواری کی خاطر اتنی تیز گاڑی چلاتے ہیں کہ اس کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ہم ہوا میں ہے یا زمین پر اور اکثر اس وجہ سے ٹریفک حادثات ہو جاتے ہیں کیا ہوگا اگر ڈرائیور احتیاط سے ڈرائیونگ کریں۔
جب ہم کسی ضروری کام کے لیے جاتے ہیں جو ٹائم بتایا ہوتا ہے تو اس سے ہم ایک گھنٹہ پہلے نکلتے ہیں ورنہ 30 منٹ تو لازمی پہلے چلے جانے کہ کوشش کرتے ھیں ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر پہلے نہ نکلے تو ٹریفک کے رش کی وجہ سے لیٹ ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے ڈسٹرک ہنگو سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بی بی نے بتایا ٹریفک رش کی وجہ سے میری جوان بہو فوت ہو گئی ہے کیوں کہ اس کی ڈیلیوری ہونے کے بعد خون زیادہ شروع ہوا تھا کیوں کہ اس کے خون کی کمی کا بھی مسئلہ تھا ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو فورا پشاور یا کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ہمارا جو علاقہ ہے اس کے ہسپتال کا راستہ ون وے ہے تو ہم اس کو وقت پر ہسپتال نہ پہنچا سکے جس کی وجہ سے وہ وفات پاگئی۔
راستے میں اتنے عجیب لوگ ہوتے ہیں رش بھی زیادہ ہوتا ہے اکثر بیچ راستے میں گاڑی کھڑی ہوتی ہے دوسری طرف راستے میں کھڑے بندے آپس میں باتوں میں لگے ہوتے ہیں اس خیال سے بے خبر کہ کسی کو ایمرجنسی ہوگی کسی کو مریض ہسپتال لے جانا ہوگا یہاں تو آجکل لوگ ایمبولینس کو بھی جگہ نہیں دیتے۔
حلیمہ بی بی نے بتایا کہ راستے کی رش کی وجہ سے جب ہم ہاسپٹل پہنچ گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ لوگوں نے دیر کر دي ہے اگر آپ لوگ پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتے تو مریضہ کی جان بچ سکتی تھی اس وجہ سے بچی جو بچ گئی تھی ابھی دو دن بعد فوت ہو گئی ڈاکٹر ہم کو قصور وار مان رہے ے کہ آپ سسرال والے لوگ ظالم ہیں حالانکہ یہ واقعہ عوام کی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ ہم نے تو اپنی کوشش کر لی تھی لیکن راستے کے رش کی وجہ سے ہم لیٹ ہو گئے تھے اگر ہم وقت پر پہنچ جاتے تو آج ہماری بہو اور اس کی بیٹی ہمارے ساتھ ہوتی۔
پھر جب ان ڈرائیوروں کو ٹریفک اہلکار جرمانہ تھماتے ہیں تو پھر انکی آہ و پکار شروع ہوجاتی ہے کہ ہم غریب لوگ ہیں اور ہمیں جرمانہ دے دیا لیکن یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ٹریفک اصولوں پر عمل نہ کرکے ہم کتنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ٹریفک پولیس اہلکار گل اکبر نے ٹی این این کو اس حوالے سے بتایا کہ آج کل جتنا بھی ٹریفک کا رش ہے اس کی وجہ چنگ چی رکشے اور سڑک پر عوام کی جانب سے تجاوزات ہیں کیونکہ ہر کسی نے سڑک پر ریڑھی لگائی ہوتی ہے اور کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ٹریفک حادثات کی وجہ موٹرسائیکلیں ہیں کیونکہ ہرکسی کے پاس موٹر سائیکل موجود ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، زیادہ تر چھوٹے بچے اس کو چلاتے ہیں اور اتنی تیز چلاتے ہیں کہ اکثر حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں، لائسنس بھی نہیں ہوتا زیادہ تر کے پاس۔ انہوں نے کہا کہ آجکل دوران ڈرائیونگ موبائل استعمال کی وجہ سے بھی زیادہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں کیونکہ موبائل بھی استعمال کررہے ہوتے ہیں اور گاڑی بھی چلا رہے ہوتے ہیں، عوام سے یہی درخواست ہے کہ وہ ٹریفک کے اصولوں پر عمل کریں اور انکے ساتھ تعاون کریں تاکہ حادثات میں کمی آئے اور ٹریفک جام سے بھی بچیں۔