بلاگزصحت

صوتی آلودگی سماعت کی خرابی کا سب سے بڑا سبب

ماہین خان

مستقل شور قریب سے سنی جانے والی تیز آوازیں سماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ بچپن کا بہرہ پن ناقابل علاج نہیں بشرطیکہ بروقت تشخیص کے ساتھ درست علاج ہو۔

دراصل قوت سماعت کی کمی نہ صرف کئی مسائل کا سبب بنتی ہے بلکہ متعدد افراد مستقل بہرے پن کا بھی شکار ہو جاتے ہیں لیکن اگر بروقت سماعت کی کمزوری کا احساس ہو جائے تو درست علاج سے عمر بھر کی محرومی سے بچا جا سکتا ہے مگر پاکستان  میں ہی نہیں تقریباً پوری دنیا میں سماعت سے متعلق معلومات کا سخت فقدان پایا جاتا ہے جس کے سبب اس سے متعلقہ مسائل کی شرح میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جاری کردہ 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی تقریباً 5 فیصد آبادی جس میں کسی نہ کسی درجے کے  خلل کا شکار ہے اور خدشہ ہے کہ 2025 تک یہ تعداد 200 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

سماعت سے محرومی جو عام طور پر بہرہ پن کہلاتی ہے کئی اقسام کی ہوتی ہے لیکن اسے دو بنیادی گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایک قسم مستقل اور دوسری عارضی بہرہ پن کہلاتی ہے۔ مستقل بہرہ پن عموماً کان کے اندرونی حصے رگ سماعت یا دماغ میں سننے کے مختص حصے کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔

شور کی آلودگی سے مراد ہے ماحول، اعصاب اور صحت پر اثرانداز ہونے والی غیرضروری اور غیرمطلوبہ مہیب یا تیز ضرر رساں آوازیں مطلب یہ کہ کوئی ایسی آواز جو انسانی سماعت کے لیے تکلیف دہ یا ناقابل برداشت ہو تو وہ شور کی آلودگی کہلائے گی۔

شور کی آلودگی انسانی صحت کی ایک نادیدہ دشمن ہے خواہ یہ ٹریفک کا شور ہو یا کارخانوں فیکٹریوں میں نصب مشینوں کا، موبائل فون اور کمپیوٹر کے ہینڈ فری آلات ہوں یا ہیجان انگیز موسیقی کے آلات، تعمیراتی کاموں کا شور ہو یا جنریٹر کی آواز، لاؤڈ اسپیکر کا بے جا استعمال ہو یا گاڑیوں میں لگے پریشر ہارن، فی زمانہ یہ تمام عوامل صوتی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام ایجادات انسانوں کو سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے ہیں لیکن ان کا بے جا استعمال خاص طور پر سماعت اور بالعموم انسانی صحت اور نفسیات پر بتدریج اثرانداز ہوتا ہے۔

اس وقت نوجوانوں میں سماعت کی کمی کا سب سے بڑا سبب تیز آوازوں سے وابستہ ہے۔ ان میں کچھ تو روز افزوں بڑھتی ہوئی آن لائن تعلیمی سرگرمیاں اور ورک فرام ہوم ہیں لیکن کچھ سرگرمیاں محض شوق سے بھی ہیں جیسے تیز موسیقی جسے سننے کے لیے عموماً ہینڈ فری آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

یاد رکھیے تیز آواز جتنے قریب سے سنی جاتی ہے سماعت کے متاثر ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ بہرے پن سے متاثرہ زیادہ تر افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جہاں اکثر و بیشتر تشخیص اور علاج کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں علاج تک رسائی حکومت اور عوام دونوں کی ترجیحات میں شامل نہیں اسی لئے بہرے پن کے مریضوں کی ایک بڑی تعداد تاعمر سماعت سے معذوری کا شکار رہتی ہے حالاں کہ بروقت اور درست علاج کے ذریعے وہ سماعت کی خاطر خواہ صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔

بہتر یہی ہے کہ سماعت میں معمولی سا سقم بھی پیدا ہونے کی صورت میں فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ سماعت کی صلاحیت تادیر قائم رکھنے کے ضمن میں سب سے اہم صوتی آلودگی سے بچاو ہے۔ اگر آج سننے میں احتیاط اور کان کی حفاظت کر لی جائے تو مستقبل میں سماعت کی محرومی سے بچا جا سکتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سماعت کی حفاظت کی اہمیت سے متعلق ہر سطح تک آگاہی فراہم کی جائے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی رواں برس عوام الناس کی آگاہی کے لئے محفوظ سماعت سے متعلق موضوع مقرر کیا ہے تاکہ غیرضروری شور سے بچنے کی ترغیب دی جا سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button