افغانستانبلاگزسیاست

طالبان میری جیب سے سگریٹ کی ڈبی بھی نکال کر لے گئے، شوق ان کے بھی نرالے تھے!

عارف حیات

جیسے ہی ہوش آیا تو ایک نئی بندوق کی نلی عین میرے سر کی اوپر تھی۔ "چرتہ تختی، خبیثہ”، (کہاں بھاگ رہے ہو خبیث) طالب چیخا۔ اس نے مجھے سڑک کے دوسرے کنارے گھسیٹ کر لیے جانے کی کوشش کی مگر میں اٹھا، اس نے مجھے قمیض کے کالر سے پکڑ لیا۔۔۔۔ (گذشتہ سے پیوستہ)

آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جانا، دن میں تارے دکھنا، حلق خشک ہونا، قدموں تلے زمین کا کھسکنا، آسمان کا پھٹنا، قیامت ٹوٹنا، غرض ڈرنے کے لئے ایسے جتنے بھی محاورے ہوتے ہیں سب کا اس وقت جملوں میں استعمال درست تھا۔ زیادہ مار کھانے کے بعد مجھے اب درد محسوس نہیں ہو رہا تھا بس کانپ رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا کہ شدید سردی ہے۔
آگے کی سوچ رہا تھا کہ یا تو جان سے مار دیں گے یا قید میں رکھیں گے، مگر کابل میں موجود کسی دوست کو اپنی خبر کیسے دوں، ایک بھی ترکیب ذہن میں نہیں آ رہی تھی۔ بس پل چرخی جیل میں قید ہونا ہے یہ بات تسلیم کر لی تھی۔

بیٹھنا چاہا تو طالب نے قمیض کی کالر سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے دیوار کے قریب کر دیا، میں نے دیوار سے ٹیک لگایا، قریب طالب کرسی پر بیٹھ گیا لیکن بندوق گود میں رکھی تھی جس کی نلی بار بار میری ناک اور منہ کے ساتھ لگ رہی تھی۔ کچھ گھنٹوں کی حراست سالوں گزرنے جیسے لگ رہی تھی۔

پولیس چوکی میں ایک اور طالب نے نمودار ہوتے ہوئے میرے بارے میں پوچھا، معلوم پڑنے پر مجھے دیکھ کر کہا “خہ دا ھغہ خنزیر دے” یعنی یہ وہی میڈیا والا خنزیر ہے۔ اس نے بس صرف مجھے گردن پر یہی کوئی درجن سے زائد تھپڑ رسید کیے اور پہلے سے موجود دو طالبان سپاہیوں نے مجھے اس کے حوالے کر دیا۔

یہ خوفناک شکل والا طالب مجھے دری زبان میں کچھ بولتا رہا کہ جس میں مجھے صرف لفظ ”خنزیر” کی سمجھ آ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد باہر سے کسی نے سیٹھی ماری اور یہ طالب باہر بھاگا، ایک لمحہ بعد پھر واپس آیا اور مجھ پر لاتوں کی ایک بوچھاڑ کر دی اور باہر نکلا۔ دیگر طالبان کو کہا کہ اندر ایک خنزیر کو ذرا سبق سکھانا تھا، پوچھنے پر وہ سب بھی اندر آ گئے۔ کل ملا کر چار طالبان تھے جن کی عمریں بمشکل 22 سال تک تھیں۔ مار کا تو عادی ہو چکا تھا مگر ڈر یہ تھا کہ بے عزتی نہ کر دیں۔۔ خیر بے عزتی سے کم سلوک کیا بھی نہیں جو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

سب یہ کہہ کر چلے گئے کہ واپس آ کر مجھے برہنا کر کے خوب ماریں گے، اور میری جیب سے سگریٹ کی ڈبی بھی نکال کر لے گئے، شوق ان کے بھی نرالے تھے۔ قریباً آدھے گھنٹے تک میں اکیلا پولیس چوکی میں بیٹھا تھا، پھر ہمت کی، اُٹھا اور چل پڑا یعنی بھاگ نکلا۔

نہ راستے کا پتا اور نہ اپنا پتا، بس پیدل ہی پیدل جا رہا ہوں، حلق بالکل خشک اور کربلا والی پیاس لگی تھی۔ سامنے ہر آنے والا شخص مجھے طالب یا جاسوس لگنے لگا۔ ذہن میں تیز جا رہا تھا مگر قدم آہستہ تھے۔ سامنے ایک بڑی شاہراہ تک پہنچا تو سب گاڑیاں دائیں جانب جا رہی تھیں، میں بھی اسی طرف مُڑا۔

کچھ راستہ پیدل طے کیا تو پھر اسی جگہ پہنچا جہاں سے مجھے گرفتار کیا گیا تھا۔ اب ڈر نے ہر طرف سے آن گھیرا، قریب ہی ایک چھوٹی گلی میں مُڑا اور بھاگا۔ پھر ایک بڑی شاہراہ پر آیا۔ اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ بیگ تو میرا دوست کے پاس رہ گیا، موبائل فون طالبان نے لے لیا ہے، پیسے، پاسپورٹ اور دیگر دستاویز بھی میرے پاس نہیں۔

ایک دکان میں داخل ہوا اور پانی کی بوتل خریدی، بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں پیسے اور پاسپورٹ موجود تھے مگر ہوش اڑنے کی وجہ سے میں نے چیک نہیں کیے تھے۔ پانی پیا اور ٹیکسی میں بیٹھ کر اس علاقہ سے نکلنے کا سوچا مگر جیسے ہی دکان سے باہر نکلا تو پھر بھول گیا کہ میرے پاس رقم ہے یا نہیں اور پیدل چل پڑا۔

خیر باغ قاضی علاقہ میں دوستوں کی جگہ آیا لیکن تالا لگا ہوا تھا۔ پھر وہاں سے ایک کلومیٹر پیدل جا کر بازار تک گیا کہ کسی سے موبائل لے کر دوستوں اور پاکستان میں اپنے دفتر کو خبر کر دوں مگر کسی نے موبائل نہیں دیا۔ ایک رات آصف شہزاد اور نیاز محمد صحافی دوستوں کے ساتھ گزاری تھی اور اس علاقہ کا پتہ تھوڑا بہت معلوم تھا۔ اب میں کچھ سنبھل گیا تو ٹیکسی میں بیٹھ کر پل محمد خان کے علاقہ پہنچا۔

جگہ معلوم ہوئی وہاں پہنچ کر سب سے رابطہ کیے۔ وہاں موجود میرے ایک دوست نے میرے موبائل پر، جو تب طالبان کے پاس تھا، رابطہ کیا تو طالبان انٹیلی جنس کے چیف نے دوسری طرف سے آنے کی دعوت دے کر موبائل واپس کرنے کی حامی بھر لی، مجال ہے کہ موبائل کے پیچھے میں واپس جاتا۔

اب اس کے بعد طالبان نے دوسرے نمبر سے میرے دوست کو فون کیا اور کہا میں کیوں پولیس چوکی سے بھاگا ہوں، اسلامی امارت میں اس کی سزا بہت سخت ہے اور آپ اپنا پتہ بتائیں ہم خود آپ کے پیچھے آ رہے ہیں۔ اب پاکستان میں موجود اپنے اہم ذرائع سے رابطہ کیا جنہیں افغانستان میں بہت تجربہ ہے۔ میرے لئے سب سے پہلے کابل سے نکلنے کا پلان بنا لیا گیا۔ (جاری ہے)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button