”گرلز سکول کے دورے ہی کیوں، ہوں تو فی میل افسران کیوں نہیں آتیں؟”
مصباح الدین اتمانی
ویڈیو وائرل ہو گئی، ایجوکیشن آفیسر سے چارج واپس جبکہ ذمہ دار خاتون ٹیچر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ لیکن کیا ہمارا مطالبہ یہی تھا اور کیا اس ایک اقدام سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں! بالکل بھی نہیں۔ ایجوکیشن آفیسر سے ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں، وہ کل بھی ہمارے لئے قابل احترام تھے اور آج بھی قابل احترام ہیں، اصل مسئلہ طالبات اور خواتین ٹیچرز کو درپیش مسائل کا مستقل حل ہے، کیا ہمیں وہ نظر آ رہا ہے؟
مذکورہ واقعے میں بھی چارج سے محروم کئے گئے آفیسر کو جلد یا بدیر دوبارہ اسی عہدے پر بحال کر دیا جائے گا یا ان کی جگہ کوئی اور آفیسر تعینات کر دیئے جائیں گے، لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
باجوڑ میں فیمیل ایجوکیشن آفیسر نہیں ہیں، خواتین ٹیچرز اور طالبات میل ایجوکیشن آفیسر کے انڈر کام کرتی ہیں جس سے درجہ ذیل مسائل جنم لیتے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے مرد افسران لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے دورے کرتے ہیں، اس میں زیادہ تر نیک نیتی پر مبنی ہوں گے لیکن اکثر خواتین ٹیچرز اور والدین اس عمل سے پریشان ہیں اور وہ پوچھتے ہیں کہ یہ دورے صرف گرلز سکول کے ہی کیوں کئے جاتے ہیں، اور اگر ہوں بھی تو میل کے بجائے فی میل افسران کیوں نہیں آتیں؟
خواتین ٹیچرز، خواتین امیدواروں اور طالبات کو میل ایجوکیشن آفیسرز سے واسطہ پڑتا ہے، ان کو اپنے مسائل کے بارے میں ایجوکیشن آفیسر سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، اس سلسلے میں کئی ایسے کیسز بمع ثبوت سامنے آ چکے ہیں جس کے بعد خواتین ٹیچرز کا میل ایجوکیشن آفیسرز کے انڈر کام کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
کئی ایسی خواتین ٹیچرز ہیں جو مسائل کے باوجود ایجوکیشن آفس جانے سے کتراتی ہیں کیوں کہ وہ وہاں خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہیں، وہ میل ایجوکیشن آفیسر سے اپنے مسائل بھی صحیح طریقے سے شیئر نہیں کر سکتیں اور نہ میل ایجوکیشن آفیسر ان کو سمجھ سکتا ہے۔
اکثر خواتین ٹیچرز اس وجہ سے بھی پریشان ہیں کہ ڈیوٹی کے باوجود ان کو کسی نہ کسی طریقے سے تنگ کیا جاتا ہے، ان کو حد سے زیادہ نوٹسز جاری کروائے جاتے ہیں اور اس قسم کے نوٹس کا جواب میل ایجوکیشن آفیسر کو دینا پڑتا ہے، وہ اگر نہیں دیتے تو ان کو تنگ کیا جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان وجوہات کی وجہ سے گرلز ایجوکیشن متاثر ہو رہی ہے، والدین بچیوں کی تعلیم کیلئے شش و پنج میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے اور اس کیلئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
میں نے جو کہا اور جن واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ مختلف ایجوکیشن آفیسرز کے دور میں رونما ہوئے ہیں، اور زیادہ تر باتوں کا ذکر نامناسب سمجھ کر نہیں کیا۔
اس لئے ہم سب کا وزیر اعلی خیبر پختون خوا محمود خان، وزیر تعلیم شہرام ترکئی اور ڈائریکٹر ایلمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حافظ ابراہیم صاحب سے مطالبہ ہے کہ باجوڑ میں فیمیل ایجوکیشن آفیسر تعینات کی جائیں، تاکہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنی شکایات اور تحفظات کا کھل کر اظہار کر سکیں اور ان کے مسائل بہتر اور باعزت طریقے سے حل ہو سکیں، تاکہ باجوڑ میں لڑکیوں کی شرح خواندگی بہتر ہو سکے، تاکہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
میں ان بھائیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں جو کہ ایجوکیشن آفیسر کی معطلی کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں، ہمارا مقصد کسی کی تذلیل نہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانا ہے، ہم اپنی توانائی منفی اور فضول پوسٹس اور کمنٹس پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے علاقے کیلئے مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں کیوں بروئے کار نہیں لاتے۔
ان بھائیوں سے بھی عرض ہے جو ویڈیو کو ایک سازش قرار دے کر ایجوکیشن افسران کے گرلز ہائی سکول کے دورے اور وہاں دیئے جانے والے پروٹوکول کو ڈیفنڈ کر رہے ہیں کہ آپ تسلیم کر لیں کہ یہ کام غلط تھا۔ کون چاہے گا کہ دسویں جماعت میں پڑھنے والی ان کی بہن یا بچی بغیر اجازت قطار میں کھڑی ہو، اور ایجوکیشن افسران پر پھول نچھاور کرے، باوجود اس کے کہ میل افسران کے وزٹس پر پابندی ہے اور پھر ساتھ میں ویڈیو بھی بنتی جائے۔
خدارا ہر چیز کو سیاسی تعصب اور اپنے منفی خیالات کی نذر نہ کریں، سیاسی پارٹیوں سے وابستگی ہر کسی کی ہوتی ہے لیکن باجوڑ ہم سب کا ہے، ہمیں اس کی بہتری کیلئے سوچنا چاہیے، اپنے معاشرے کی خوشحالی کیلئے ہم کم از کم ایک ادنی کوشش تو کر سکتے ہیں۔