جب بیس سال پہلے ملابرادر نے حامد کرزئی کو قتل ہونے سے بچایا
انور زیب
سن 1994 سے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے حامد کرزئی کی نظریں افغانستان کے مستقبل پر تھیں اس لئے کئی مواقع ملنے کے باوجود وہ امریکہ منتقل نہیں ہوئے۔ وہ جلاوطنی کے دوران پاکستان میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے سفیروں اور سی آئی اے کے ایجنٹس کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے تاکہ موقع ملتے ہی طالبان کی حکومت کو گرایا جا سکے۔
نائن ایلیون کے واقعہ کے بعد جب ملا عمر نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو بش انتظامیہ نے بدلہ لینے کے ٹھان لی۔ 7 اکتوبر 2001 کو امریکہ نے افغانستان پر باقاعدہ ہوائی حملے شروع کئے اور اسی رات قندہار اور کابل میں طالبان کے 31 ٹھکانوں کو فضا سے نشانہ بنایا۔
امریکی حملے سے پہلے حامد کرزئی کو اندازہ ہو گیا تھا اور انہوں نے قندہار سے متصل صوبہ ارزوگان میں قبائلی مشران سے رابطے بحال کئے تھے۔ حملے کے بعد ان رابطوں میں مزید تیزی آئی، کرزئی اپنے قریبی دوستوں اور قبائلی مشران کو طالبان کے خلاف ارزوگان میں اکٹھا کر رہا تھا، اس مقصد کیلئے کئی مرتبہ ان مشران کو کوٹئہ بھی بلا لیا گیا۔
ڈچ صحافی بیٹی ڈِم اپنی کتاب "اے مین اینڈ اے موٹر سائیکل” میں لکھتی ہیں کہ امریکی حملوں کے چند دن بعد حامد کرزئی اپنے چند ساتھیوں سمیت چمن بارڈر تک بذریعہ موٹر کار پہنچ گیا اور وہاں سے دو موٹر سائیکل خرید کر ارزوگان روانہ ہو گیا۔ حامد کرزئی کے ساتھ موٹر سائیکل پر حاجی حافظ اللہ تھے جس کو بعد میں کرزئی کے دور حکومت میں یو اے ای میں سفیر تعینات کیا گیا۔ کرزئی کو سی ائی اے کے ایجنٹ کریگ نے سٹیلائٹ فونز اور ڈالر دیئے تاکہ ارزوگان میں مقامی ملیشا کو طالبان کے خلاف لڑنے پر راضی کر سکے۔
والد کی وفات کے بعد کرزئی پہلی مرتبہ ارزوگان آ رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ طالبان کی جانب کھلی دھمکی کے باوجود بھی اپنے والد کے جنازے میں شرکت کیلئے یہاں آئے تھے، اور جنازے کے فوراً بعد کوئٹہ چلے گئے۔ اس وقت حامد کرزئی طالبان کو مطلوب افراد میں شامل تھا۔
حامد کرزئی کے والد عہد کرزئی پاپولزئی قبیلے کا سردار تھا۔ کنگ ظاہر شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد انہوں اہل و عیال کے ساتھ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ عہد کرزئی کو 14 جولائی 1999 کو کوئٹہ اپنے گھر کے باہر موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ یہ قتل مبینہ طور پر طالبان نے کیا تھا۔
بیٹی ڈِم کے مطابق ارزگان پہنچنے پر کرزئی نے مقامی قبائلی مشران کو اپنے منصوبے اور طالبان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی۔ کرزئی نے انہیں باور کرایا کہ طالبان کے خلاف امریکہ ان کی مدد کرے گا۔ ایک چھوٹے سے مجمع کو جمع کرنے کے بعد کرزئی نے سی ائی اے سے اسلحہ مانگ لیا۔
نومبر کی پہلی تاریخ رات کو یو ایس فورس نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے دورجی کے پہاڑی چوٹی پر حامد کرزئی اور ان کے ملیشا کیلئے تین سو کلاشنکوف اور دیگر اسلحہ پھینک دیا۔ جب اسلحے کی خبر ترین کوٹ پہنچ گئی تو طالبان نے کرزئی کی سرکوبی کیلئے قافلہ روانہ کیا تاہم قافلہ درجی پہنچنے سے پہلے ملا برادر نے کرزئی کو ممکنہ حملے سے آگاہ کیا اور کرزئی اس حملے میں بچ نکلے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ملا برادر نے، جس کا تعلق خود پاپولزئی قبیلے سے ہے، حامد کرزئی کو بچانے کیلئے انہیں ایک دن پہلے خبردار کیا تھا۔ ملا برادر اس وقت ترین کوٹ سے متصل ضلع دہ راوود کے امیر تھے۔
اے مین اینڈ اے موٹر سائیکل میں مزید لکھا گیا ہے کہ طالبان سے لڑائی میں شکست کے بعد کرزئی اپنے چند ساتھیوں سمیت چڑچینو اور دیگر علاقے میں گئے تاہم مقامی لوگوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ کرزئی نے حالات کی نزاکت کو جانچ کر واپس درجی آنے کا فیصلہ کیا۔
درجی پہنچ کر انہوں نے پاکستان میں سی آئی سے انخلا کیلئے مدد مانگی انہیں ہیلی کاپٹر کے زریعے جیکب آباد پہنچا دیا گیا۔ کرزئی کو بحفاظت لینے کیلئے سی آئی اے کے ایجنٹ اور کرزئی کا دوست کریگ خود موقع پر پہنچ چکے تھے۔
ایک اور صحافی آنند گوپال اپنی کتاب "نو گڈ مین آمانگ دی لیونگ” میں بیان کرتے ہیں کہ جیکب آباد میں حامد کرزئی کی ملاقات امریکن لفٹیننٹ کرنل جیسن امیرین سے ہوئی تو اسی دوران انہوں دوبارہ ارزوگان جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس مرتبہ اپنے ساتھ امریکہ فوجیوں کو لے جانے کا پلان تیار کیا۔
گوپال کے مطابق چودہ نومبر 2001 کو اس پلان پر عمل درآمد کیلئے جیسن امیرین، حامد کرزئی، سپیشل فورس کے گیارہ کمانڈو اور سی ائی اے کے ایجنٹس کو ساتھ لے کر ترین کوٹ کے قریب درجی میں اتر گئے۔ وہ چند دنوں تک یہاں پر مقامی لوگوں سے ملتے رہے اور اپنے لوگوں کو ترین کوٹ پر حملے کرنے کیلئے تیار کر رہے تھے، اسی دوران کرزئی کو اطلاع ملی کہ ترین کوٹ طالبان پہلے سے خالی کرا چکے ہیں۔
کتاب میں اس نے مزید لکھا ہے کہ جب حامد کرزئی ساتھیوں سمیت ترین کوٹ پہنچے تو طالبان نے ان پر حملے کیلئے قندہار سے ملا منان کو سینکڑوں طالبان کے ساتھ روانہ کر دیا۔ تاہم ترین کوٹ میں داخل ہونے سے پہلے امریکہ کے فضائی حملوں سے طالبان شدید جانی اور مال نقصان اٹھا کر پسپا ہو گئے۔ اس معرکے کو بیٹل آف ترین کوٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
جب حامد کرزئی ترین کوٹ اور قندہار میں جنگ میں مصروف تھا تو اسی دوران بون کانفرنس میں کرزئی کو صدر بنانے کا فیصلہ ہوا تھا، باوجود اس کے کہ ازبک رہنما عبدالستار سیرت نے اس انتخاب کی مخالفت کی تھی۔ کانفرنس میں سیرت کو کرزئی سے زیادہ ووٹ پڑے تھے لیکن امریکہ کو اس دفعہ ایک پشتوں رہنماء کی ضرورت تھی اور کرزئی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔
صدر بننے کی خبر سننے سے پہلے کرزئی ایک امریکی فضائی حملے میں زخمی بھی ہو گیا تھا۔ یہ حملہ قندہار میں ہوا تھا۔ حملے میں سپیشل فورس کے تین کمانڈو، مقامی ملیشا کے سپاہی اور خود اے ٹیم کے سربراہ امیرین جیسن زخمی ہوئے تھے۔
امریکہ کی افغانستان میں پہلی کارروائی کے تقریباً دو ماہ بعد پانچ دسمبر کو بون کانفرنس میں حامد کرزئی کو قائم مقام صدر منتخب کیا گیا اور اسے قندہار سے کابل بذریعہ ہیلی کاپٹر پہنچا دیا گیا۔
جون 2002 میں کابل میں لویہ جرگہ منعقد ہوا۔ کونسل آن فارن ریلیشنز کے ویب سائٹ پر موجود ایک آرٹیکل کے مطابق اس جرگے میں دو سو خواتین سمیت افغانستان بھر سے 1550 نمائندوں نے شرکت کی۔ جرگے میں حامد کرزئی کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اکتوبر 2004 کے انتخابات میں حامد کرزئی 55 فیصد ووٹ لے کر دوبارہ صدر منتخب ہوئے۔ کنگ ظاہر شاہ کے دور کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ ووٹ کے ذریعے کسی کو منتخب کیا گیا تھا۔ نومبر 2009 میں حامد کرزئی ایک بار پھر انتخابات جیت کر صدر منتخب ہوئے اور 2014 تک صدر رہے۔
مشہور شخصیات کی سوانح عمری لکھنے والی ویب سائٹ "بریٹانیکا ڈاٹ کام” کے مطابق حامد کرزئی 1957 کو افغانستان کے صوبہ قندہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی۔ بعد میں ہندوستان کے ہماچل پردیش یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
حامد کرزئی نے 1978 سے 1992 تک مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت نواز حکومت کے خلاف کام کیا۔ نجیب کی حکومت کے خاتمے بعد حامد کرزئی مجاہدین کی حکومت میں برہان الدین ربانی کی کابینہ کا حصہ رہے اور انہوں نے دو سال تک وزیر خارجہ کے عہدے پر کام کیا تاہم حزب اسلامی کے ساتھ روابط کے الزام میں کرزئی کو برطرف کیا گیا اور اس سے کابل میں تحقیقات جاری تھی کہ جہاں کرزئی کو رکھا گیا تھا وہاں ایک راکٹ حملہ ہوا۔ افراتفری میں کرزئی وہاں سے بھاگ کر پاکستان پہنچ گئے۔
اسی دوران ملک میں طالبان کی گرفت مضبوط ہونے لگی۔ 1995 میں طالبان نے افغانستان کے ایک صوبہ ہرات پر قبضہ کر لیا۔ 1996 میں طالبان نے مجاہدین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 1998 تک 90 فیصد افغانستان پر طالبان کا قبضہ کر لیا۔ اس وقت ملک میں طالبان اور حزب اسلامی کے درمیان اقتدار کی لڑائی جاری تھی۔
کتاب "دی مین اینڈ اے موٹر سائیکل” کے مطابق حامد کرزئی کے قبیلے پاپولزئی نے قندہار میں طالبان کے ساتھ مل کر حزب اسلامی کے امیر لالئی کے خلاف جنگ کی، اس جنگ میں حزب اسلامی کو شکست ہوئی اور گورنر امیر لالئی نے بھاگ کر ایران میں پناہ لے لی۔
صحافی بیٹی ڈِم کے مطابق پاپولزئی قبیلے کے تعاون کے بدلے میں طالبان نے حامد کرزئی کو یو این میں سفیر مقرر کرنے کیلئے نامزد کیا، تاہم ملا عمر کی مخالفت کی وجہ وہ اس عہدے سے محروم رہے۔ عہدہ نہ دینے اور پاپولزئی قبیلے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے حامد کرزئی ایک بار پھر مخالف کیمپ میں بیٹھ گئے۔
والد کے انتقال کے بعد حامد کرزئی قبیلے کے سربراہ بن گئے۔ کرزئی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئٹہ کے ایک لینگویج سنٹر اور آئی آر سی پشاور کے ایک سکول میں بطور استاد کام کیا۔ یہ صرف حامد کرزئی کی کہانی نہیں بلکہ افغانستان کے کئی دیگر لیڈروں کی کہانی بھی ہے۔
انوزیب پشاور میں مقیم صحافی ہے۔ وہ @IMAnwarZeb کے ہینڈل سے ٹویٹس کرتے ہیں