‘مجھے استعمال میں لایا جائے، پانی فلٹریشن پلانٹس کی فریاد’
کیف آفریدی
زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا کئے ہیں جو بنیادی ضروریات کی حامل ہیں ان میں سے بے رنگ ،بے بو اور بے ذائقہ مرکب کی صورت پانی ایک انمول نعمت ہے جوانسانی زندگی کا نہایت اہم جزو ہے۔
پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی دستیابی کا معاملہ بحرانی شکل اختیار کرچکا ہے کیونکہ ملک کی آبادی لگ بھگ 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے جبکہ بیشتر شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ دیہاتوں میں بسنے والے 82 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ۔واٹر ریسرچ کونسل کے مطابق ملک کے 23 بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹیریا ،آرسینک ،مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔
پاکستان میڈیکل ہیلتھ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی ہے جس کے باعث سالانہ 11 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ہیپا ٹائٹس اور کینسر جیسے لا علاج مرض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی قرار دیا جا چکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا باعث بنتا ہےجس میں ہیپاٹائٹس، آنتوں، معدہ و جگر، گردے کی بیماریوںسمیت کینسر جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں، یہ تشویش ناک صورت حال ہنگامی اور بھرپور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
اس ضمن میں حکومت پاکستان نے پورے ملک کی طرح پھولوں کی شہر پشاور میں بھی واٹر فلٹریشن پلانٹس لگائے ہیں جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر ہوتا ہے۔ حکومت نے ہر مخصوص جگہ پر اس طرح کثیر تعداد میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کئے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم پلانٹس ایسے ہے جن سے لوگ استعفادہ حاصل کر رہے ہیں جبکہ بہت سارے نصب واٹر فلٹریشن پلانٹس کی عرصہ دراز سے صفائی نہیں ہوئی اور متعدد پلانٹ ایسے بھی ہیں جن کے فلٹر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب واٹر سپلائی کے پائپ بوسیدہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ سے پھٹ گئے ہیں اور ان میں سیوریج لائن کا پانی داخل ہو رہا ہے۔
بلدیہ عملہ کی جانب سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر فلٹریشن پلانٹ ناکارہ ہوچکے ہیں
متعلقہ عملہ اگر انکا صیح خیال رکھتے یعنی ہفتے میں یا مہینے میں ایک بار ہر واٹر فلٹریشن پلانٹ کی چیکنک کراتے ان میں جو نلکے یا پائپ خراب ہے انکی مرمت کرتے ساتھ میں فلٹریشن مشین بھی چیک کراتے تو شاید زندگی کی اس قیمتی نعمت کو برقرار رکھا جاتا۔
اب اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو حکومت کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی اس نعمت کو اپنی ضروریات زندگی میں استعمال کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر فلٹر پلانٹس کے چاروں طرف اس قدر گندگی پھیلی ہوئی ہوتی ہے کہ پانی کی بوتل بھرنا بھی محال ہوجاتا ہے۔
آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ اکثر فلٹر پلانٹس کے ارد گرد کچرا نظر آتا ہے اب ظاہر بات یہ کچرا اور گندگی ہم عوام ہی پھینگتے ہے۔ اس واٹر فلٹریشن پلانٹس کی بوسیدہ حالت دیکھ کر ناجانے کیوں دل میں یہ آجاتا ہے کہ پانی کے یہ فلٹریشن پلانٹس جیسے فریاد کررہے ہو کہ خدا کے لیے مجھے اپنے استعمال میں لایا جائے۔
محکمہ بلدیہ سے التجا ہے کہ خدارا تمام فلٹر پلانٹس کی صفائی کے ساتھ ساتھ ان کے اطراف میں پھیلے گندگی کے ڈھیر بھی ٹھکانے لگائے. اور عوام کو اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے کمپئین چلائے جائے تاکہ عوام اسکی حفاظت اپنی زمہ داری سمجھے اور انکا صیح استعمال ہو جائے۔ ایک فرض شناس شہری ہونے کے ناطے ہمیں ان واٹر فلٹریشن پلانٹس کی حفاظت کرنی ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے بنے ہیں اور ہم ہی انکا خیال رکھیں۔اگر ہم اس قسم کی چیزوں کا خود خیال رکھیں اور اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائیں تو انشاءاللہ وہ دن دور نہیں کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑا ہو جائے گا۔