بلاگز

میوند کی ملالہ! جس کے آنچل نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا

مولانا خانزیب

انسانوں کے بہادری کے قصوں میں اکثر آپ کو تاریخ میں مردوں کی بہادری اور تیروتفنگ کی داستانیں دیکھنے کو ملی گی اور اکثر صنف نازک کے نام سے مشہور اس انسانی جنس کو نظر انداز کیا جاتا ہے مگر پختون قوم جن کے تاریخ وتشخص کو کچھ عرصہ سے ایک منصوبہ بندی کے تحت مسخ کیا جارہا ہے اور جدید جنگی اقتصادی ماحول میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس تاریخی قوم کو ،انتہاء پسند، اجڈ، پسماندہ، اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا ہیں۔

تاہم دوسری جانب  اس قوم کے حوالے سے تاریخ کی روشنی اور حقیقت یہ ہے کہ اس قوم نے اسوقت سے جب مغرب  گھپ اندھیروں میں تھا دنیا کو حکمرانی تہذیب رواداری اور اعتدال پسندی کے نمونے دئیے ہیں جس کی بڑی مثال یہ ہے کہ اس قوم کے قومی ہیروں اگر ایک طرف مرد ہیں تو دوسری طرف اس قوم کے تاریخ میں دیگر ان اقوام کی بنسبت جو اپنے آپ کو بڑے متمدن اور تہذیب یافتہ سمجھتے ہیں عورتوں کا بطور قومی ہیروز کا ذکر بھی موجود ہے۔ عورتوں کی قومی تاریخ سے وابستگی اس قوم کی تاریخی رواداری اور اعتدال کا ثبوت ہے ہمیں حال کے مکروہ سیاسی مقاصد کے تناظر میں تبصروں اور تجزیوں کے بجائے اپنے ماضی کی درست تعبیرات کی طرف رجوع کرنا پڑیگا۔

تاریخ میں اگر ایک طرف ظہیرالدین بابر کو ایسپزئی( یوسفزئی) قوم کی طرف سے رشتہ میں دینی والی، بی بی مبارکہ، کی ذہانت وفطانت کا ذکر ہے تو دوسری طرف مغل استعمار کیخلاف مردوں کے لباس میں دلہ زاک قبیلے کی جنگجو شاہ بوڑی کے شجاعت کی داستانوں کا  ذکر بھی ہے جن کے بہادری کے قصوں کو سننے کے بعد بابر بھی اس کے موت پر افسردہ ہوا تھا  جب بابر کے لشکر نے کلپانی کے آر پار عمرخیل کے دونوں گاؤں کو تباہ کیا اس جنگ میں عمرخیل کی ایک بہادر خاتون شاہ بوڑئی جوانمردی کیساتھ لڑی تھی جو بہت عرصہ تک مقامی موسیقی  میں یاد کی جاتی تھی۔  ایک گھر سے بڑی زبردست تیر اندازی ہو رہی تھی اور تیر انداز انتہائی تربیت یافتہ نشانہ باز معلوم ہو رہا تھا جو بھی مغل فوجی آگے گھر کی طرف بڑھتا ڈھیر ہو جاتا مغلوں نے چاروں طرف سے گھر کو گھیرے میں لے کر زبردست فائرنگ اور تیر اندازی کی لیکن دوسری طرف سے اس انداز سے مزاحمت جاری رہی جو بھی سامنے آتا کسی نا کسی مغل فوجی کو ضرور ہلاک کردیتا ۔

اس تیر کی رفتار اس حد تک تیز ہوئی تھی کہ سپاہی کے جسم کے آر پار ہو جاتا تھا یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا تو ہر طرف ہلچل مچ گئی کہ گھر میں کوئی بلا ہے ہر طرف سے فوجی اس مقام پر پہنچے جہاں سے تیر برس رہے تھے اس گھر پر مغلوں نے تیروں کی زبردست بارش اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی کچھ دیر بعد تیر آنا بند ہوگئے تو مغل فوجی گھر کے اندر داخل ہوتے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں صرف ایک نوجوان خوبصورت عورت کی لاش پڑی تھی جس کا پورا بدن تیروں سے چھلنی ہو چکا تھا.

غشو دہ مغلو شاہ بوړۍ غلبیل غلبیل کڑہ

یادہ ده تاریخ د دلزاکو دې  ننګېاله شي !

زرغونہ ماں احمد شاہ ابدالی کی ماں کا تاریخی کردار بھی مسلم ہے جبکہ قندہار  میوند ہی کے مقام پر داد شجاعت دینی والی ملالئ اسحاک زئی کی تاریخ ہمارے قابل فخر روایات کا حصہ ہے۔ قندہار  کے علاقے میوند سے تعلق رکھنے والی  ملالئ  1861 میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ  ایک غریب چرواہے کی بیٹی تھی اور  ایک مقامی لڑکے کے ساتھ اس کی منگنی بھی ہوئی تھی 1878 میں فرنگیوں نے دوسری بار افغانستان پر قبضے کیلیے اس وقت کے ہندوستان سے فوج بھیجی پہلی افغان جنگ 1839_سے 1842 تک لڑی گئی تھی جبکہ دوسری انگریز افغان جنگ سلطنت برطانیہ اور افغانستان کے مابین 1878ء تا 1880ء تک لڑی گئی۔ جب مملکت بارکزئی کے حکمران  امیر دوست محمد خان  کی خاندان کی افغانستان میں حکمرانی تھی۔

اس جنگ میں برطانیہ میں بحیثیت مجموعی فرنگی کو فتح ہوئی اور انہوں نے اپنے تمام زمینی اور سیاسی مقاصد حاصل کئے جس کو 1883 میں ڈیورنڈ کی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس جنگ  کے بعد افغانوں نے ایک معاہدے کے تحت برطانوی فوجوں کو افغانستان سے نکلنے پر رضامند کر لیا مگر خارجہ تعلقات پر فیرنگیوں کا کنٹرول تھا جبکہ تیسرے افغان وار 1919 میں غازی امان اللہ خان نے مکمل طور پر فرنگی سامراج سے افغانستان کا استقلال حاصل کیا۔ انگریزوں نے افغانوں کو بظاہر ملکی خومختاری دی لیکن ان کے خارجہ پالیسی کو برطانیہ کی خواہشات کے تابع کیا گیا۔  ۔امیر افغانستان شیر علی خان کا بہادر بیٹا ایوب خان افغانی فوج کا کمانڈر تھا جبکہ امیر یعقوب بعد میں فرنگیوں کیساتھ ملا ہوا تھا اور اس نے گندمک جیسے شرمناک معاہدے پر 1879 کو دستخط کئے مگر اس کے باوجود وہ پھر بھی بچ نہ سکا۔

افغان فوج شکست کے قریب تھی ۔ملالئ بھی دوسری افغان خواتین کی طرح اپنے فوج کی زخمیوں کی مرہم پٹی اور مدد میں مصروف تھی ۔ 27 جولائی 1880 کو ایک لڑائی کے دوران افغان فوج شکست سے دو چار تھی میدان کار زار میں ملالئ نے اپنے دوپٹے سے جھنڈا بنایا میدان میں آئی اور ایوب خان کے افغان فوج کے سامنے پشتو زبان میں چند جنگی ٹپے گائیں ۔فوج ازسر ے نو منظم ہوئی ۔جذبے سے لڑی یہ دیکھ کر کہ ایک لڑکی کی وجہ سے وه جنگ ہار رہے ہیں فرنگی فوج نے ملالہ کو نشانہ بنایا اور وه شہید ہوگئی جبکہ اسکا منگیتر بھی اس جنگ میں شہید ہوا ۔ ایوب خان کی سربراہی میں افغان فوج  جنگ جیت گئے ۔انگریزوں کو شکست ہوئی جنگ میں انگریز فوج کے کمانڈر جارج بروس نے شکست کے بعد کہا کہ اگر ملالہ میدان جنگ میں نہ آتی تو ہم باآسانی جیت جاتے۔  شکست کے بعدجلد ہی بلوچستان کے راستے فرنگیوں نے اور فوج بھیج کر افغانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنا بدلہ لیا۔21 برطانوی اور ہندوستانی افسر اور 948 فوجی جنگ کے دوران مارے گئے۔ 8 اہلکار اور 169 فوجی زخمی ہوئے تھے ۔ گھڑسوار کی ہلاکتیں کم سے کم تھی جبکہ 3000 افغان شہید ہوئے تھے۔

19 سالہ ملالئ کے نام پر افغانستان میں سکول،  کالج  اور سڑکیں قائم ہیں ۔وه پچھلے 140 سال سے تمام پختونوں کی قومی تاریخی شخصیت ہے ۔ پختو ادب انکی ذکر سے بھرا پڑا ہے ۔ہر سال 27 جولائی کو اس کا دن منایا جاتا ہے اور پختون عزت سے اسکو ملالہ نیا یعنی دادی ملالی کہتے ہیں ۔ غازی ایوب جو کہ امیر شیر علی خان کا بیٹا اور امیر یعقوب خان کا بھائی تھا اپنے خاندان کی سیاسی کمزوریوں سے مایوس ہوکر پہلے ایران اور پھر ہندوستان چلا گیا تھا 1914  کو 58 سال کی عمر میں لاہور میں بڑی کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوا تھا اور اسے انکے وصیت کے مطابق پشاور میں پختونوں کی سرزمین پر دفنایا گیا یہ بھی بتاتا چلوں کہ اتل ایوب خان غازی کا مزار پشاور کے تاریخی وزیر باغ پشاور میں درانیوں کے قبرستان میں سید حبیب کے زیارت کیساتھ  واقع ہے مگر پختونوں کے ان ہیروز کا ذکر آپکو نصاب کی کتابوں میں نہیں ملے گا.  ملالہ کی قبر قندھار میوند ضلع کے شہداء قبرستان میں خستہ حالت میں ہے۔

مشہور ٹپہ جو ملالئ نے بآواز بلند کہا تھا اور اسکے بھادری سے منسوب کچھ دوسرے ٹپے۔

 

که پہ میوند کښې شهيد نه شوې

ګرانہ لالیه ! بې ننګې له دې ساتینه

خال به دېار له وينو کيږدم

چې شینکي باغ کښې ګل ګلاب اوشرموينه .

ملالۍ!  بېا دا ايوبې څڼې دې وبونړوا

په ما کښې بېا هغه ده تېر ميوند جزبه راوله

مئینه ځه !  اللہ دې مل شه

زہ شینکې خال او زلفې تالرہ ساتمه

ټوټې ټوټې په تورو راشې

دبې ننګې آواز دې رامه شه مئينه

ٹوٹې ٹوٹې پہ تورو راشئ

چه پرهرونه دې ګنډم خوله درکومه

جانانہ جنګ نه په شا نه شې

چه دہ همزولو مې رانه شي پېغورونه

چه تورہ اوباسې ګډیګه

ماپه همزولوپورې ډیرخندلي دینه

جنګ خود کلي مېنځ ته راغلو

نامړدہ پورته شه چې ملا دې اوتړمه

دنتکئۍ لال بہ پرې خیرات کړم

که مې جانان پہ دغه جنګ کښې شہید شينه

که تور اوربل  مې میراتیګي

پې وطن جنګ دې لالې نہ منع کومہ

خاوندہ سلځله ژوندراکړې

چہ دوطن پہ مينه سل ځله مړہ شمہ

شاعر انسانیت رحمان بابا

چې په ننګ اوپه ناموس ترلورہ کم وي

صدقہ شه ناقابل زوېه تر لوره

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button