بلاگزقبائلی اضلاع

میرعلی بازار جہاں ملک بھر سے تاجر آتے تھے، اب کس حال میں ہے؟

مزمل خان داوڑ

اگر دیکھا جائے تو اکثر قبائلی علاقے افغان جنگ کے شروع ہونے کے بعد ہی زوال کا شکار ہونا شروع ہو گئے تھے اور جگہ جگہ بم دھماکوں اور مختلف قسم کے کرفیو نے قبائلی علاقوں کے کاروبار پر خاطر خواہ اثر ڈالا تھا، ہر وقت حالات خراب رہتے تھے، دہشت گردی عروج پر تھی۔ ہر طرف خوف کی فضاء قائم ہو چکی تھی بعض قبائل آپس میں قومی اراضی کے تنازعات کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے تھے پورے قبائلی علاقے خیبر سے لیکر وزیرستان تک بدامنی کی لپیٹ میں تھے اور شمالی وزیرستان میں بھی یہی صورتحال تھی۔
اگر اس حوالے سے شمالی وزیرستان کے میرعلی بازار کا ذکر کیا جائے تو ان حالات سے پہلے میرعلی بازار کاروباری لحاظ سے بہت اچھا تھا، میرعلی بازار تقریباً سات ہزار 7000 دوکانوں پر مشتمل تھا جن میں بعض ایسے دوکانیں اور گودام بھی تھیں جن میں کروڑوں روپے کا سامان موجود تھا، حالات کی خرابی کے باوجود میرعلی بازار میں پاکستان کے کونے کونے سے لوگ کاروبار کرنے کےلئے آتے تھے ۔ میرعلی بازار میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے اور اپنے کاروبار میں مصروف تھے، امن نہ ہونے کے باوجود یہاں کاروبار کی شرح بہت زیادہ تھی۔ میرعلی بازار میں ہر قسم کی سہولیات موجود تھی میرعلی بازار میں بجلی کی سہولت موجود تھی جگہ جگہ اور گلی گلی بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفارمرز موجود ہوتے تھے اس طرح ہر قسم مشینری چلانے کیلئے بجلی میسر تھی اور انکو باسانی چلایا جا سکتا تھا۔
پھر اچانک یک دم حالات کشیدہ ہوئے اور حکومت کی طرف سے خراب حالات کی وجہ سے 14 جون 2014 کو اپریشن ضرب عضب کے اعلان پر شمالی وزیرستان کے لوگوں کو اپنا ابائی وطن چھوڑنا پڑا اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں رہنے پر مجبور ہوئے اور آئی ڈی پیز کے نام سے تقریبا دو سال تک دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔


اخر کار حکومت پاکستان نے رفتہ رفتہ ائی ڈی پیز کو اپنے ابائی وطن وزیرستان واپس بھیجنے کا اعلان کیا اور واپسی کا عمل شروع ہوا جب یہ لوگ وطن واپس ائے تو یہاں روزمرہ زندگی کی سہولیات موجود نہیں تھیں میرعلی بازار کا نام ونشان تک موجود نہیں تھا مسماری کا یہ عالم تھا کہ سارا میرعلی بازار صرف ملبے کا ڈھیر تھا۔ نہ کوئی دوکان باقی تھا اور نہ کوئی بجلی نظام وغیرہ۔
مجبوری کے مارے عوام نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ دوکانوں پر تعمیراتی کام شروع کیا, اہستہ اہستہ دوکانیں اور مارکیٹوں کی تعمیر کا عمل شروع ہوا اور اب تک تقریبآ میرعلی بازار میں اپنی مدد اپ کے تحت لگ بھگ چار ہزار 4000 دوکانیں تعمیر ہو چکی ہیں جس میں کاروبار بحال ہیں اور روزمرہ اشیاء خوردونوش سمیت ہر قسم کا سامان اس وقت بازار میں دستیاب ہے۔
تعمیراتی سلسلہ بدستور جاری ہے اور وطن واپسی کے تقریبا دو سال بعد تاجر برادری کے تین ہزار سات سو 3700 دوکانداروں میں تین لاکھ 300000 سے لیکر چودہ لاکھ 1400000 تک فی دوکاندار کا معاوضہ حکومت وقت نے تقسیم کیا۔
تاجر برادری میرعلی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے سنئیر رہنماء شوکت داوڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ معاوضہ بالکل بھی کافی نہیں ہے کیونکہ اکثر دوکانداروں کا نقصان اس معاوضہ سے بہت زیادہ ہے انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ یہ رقم سامان کی مد میں دوکانداروں میں تقسیم ہوئی جب کہ اب تک مالکان اراضی دوکان کو معاوضے کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں ملا اس کے لئے ہم نے بہت احتجاجیں بھی ریکارڈ کی ہیں لیکن اب تک حکومت کی طرف سے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا لہذٰا تاجر برادری کمیٹی، حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ جلد از جلد میرعلی بازار کے مالکان اراضی دوکان کو معاوضے کی منظوری اور ادائیگی کی جائے۔
شمالی وزیرستان میرعلی بازار سے تعلق رکھنے والے دوکاندار لائک زمان موسکی نے ٹی این این سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضرب عضب سے پہلے کاروبار سو 100 گنا بہتر تھا اجکل کل کے کاروبار کے لحاظ سے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت اپنے وعدے پورے ہونے میں ناکام نظرآرہی ہے چار 4 سال گزرنے کے باوجود اب تک حکومت وقت میرعلی بازار کی بجلی ، نکاس اب ودیگر سہولیات کو حسب سابق بحال کرنے میں ناکام ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ میرعلی بازار کو ہر قسم سہولیات سے آراستہ کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر فنڈز کی منظوری دی جائے تاکہ دوکانداروں کے مسائل کم ہوسکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button